جموں:یکم مارچ:لیفٹیننٹ گورنرمنوج سنہا نے بدھ کے روز لوگوں پر زور دیا کہ وہ غلط معلومات پھیلانے والے مخصوص مفادات کا شکار نہ ہوں اور تجاوزات کے خلاف مہم، بجلی کی پیداوار اور پراپرٹی ٹیکس کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا نہ کریں۔انہوںنے پھریقین دہانی کرائی کہ انسداد تجاوزات مہم کے دوران کسی غریب کو ہاتھ نہیں لگایا جائے گا لیکن کسی بااثر تجاوزات کو بخشا نہیں جائے گا۔ لیفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ حکومت کی طرف سے قبضہ شدہ اراضی کو عام آدمی کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جائے گا اور حاصل کی گئی زمین پر اسکول، کالج، اسپتال، کھیلوں کی سہولیات تیار کی جائیں گی۔جے کے این ایس کے مطابق جموں میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہانے جموں وکشمیر میں پراپرٹی ٹیکس کے نفاذ سے متعلق حقائق کو بھی تفصیل سے بتایا۔انہوںنے کہاکہ دوسری ریاستوں کے مقابلے جموں و کشمیر میں پراپرٹی ٹیکس سب سے کم ہے۔ جموں و کشمیر کے شہروں میں تقریباً 5لاکھ20ہزار مکانات ہیں۔ ان میں سے 2لاکھ6ہزار مکانات 1000 مربع فٹ سے کم ہیں اور ان پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا جا رہا ہے۔ شہروں، دیہی اور مذہبی مقامات پر رہنے والے40 فیصد لوگوں پر کوئی ٹیکس نہیں۔2لاکھ 3ہزار600مکانات 1500 مربع فٹ سے کم ہیں اور ان میں سے80فیصد گھرانوں کو سالانہ600 روپے سے کم ادائیگی کرنی ہوگی۔ لیفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ یہ رقم شملہ، امبالہ اور دہرادون میں ادا کی جانے والی ٹیکس رقم کا دسواں حصہ ہے۔انہوںنے مزید کہاکہ شہر کے علاقوں میں ایک لاکھ ایک ہزار دکانوں میں سے 46ہزار دکانیں100 مربع فٹ سے کم ہیں اور انہیں 700 روپے سالانہ تک ادا کرنا پڑے گا۔ ان 46ہزار دکانوں میں سے 80فیصد کو 600 روپے سالانہ/50 روپے ماہانہ ادا کرنے ہوں گے۔ 30ہزار دکانوں کو سالانہ2000 روپے سے کم ٹیکس ادا کرنا ہوگا اور ان میں سے20ہزار کو سالانہ1500 روپے سے کم ٹیکس ادا کرنا ہوگا جو شملہ، امبالہ اور دہرادون میں ادا کی جانے والی رقم کا دسواں حصہ بھی ہے۔انہوں نے کہاکہ آمدنی براہ راست میونسپلٹیوںاور کارپوریشنوں کے کھاتوں میں جائے گی۔ لیفٹنٹ گورنر نے مزید کہا کہ یہ قدم ہمارے شہروں کو ترقی کا انجن بنانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔انہوںنے نے پراپرٹی ٹیکس میں بہتر انتظامات کے سلسلے میں سماج کے تمام طبقات سے تجاویز بھی طلب کیں۔ہمارے دروازے کھلے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر کو ملک کا ایک متحرک اور ترقی یافتہ خطہ بنانے کے لیے سب کو آگے آنا چاہیے۔