بلال احمد پنڈت
استاد ہائیر ایجوکیشن
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔۔۔
مملکت علم میں ہم کئی بار ایسے اشخاص سے ملاقی ہوجاتے ہیں،جو بعد میں ہماری زندگی کا ناقابل تنسیخ حصّہ بن کر رہ جاتے ہیں۔۔۔ایسےافراد ہماری زندگیوں میں نہ مٹنے والے نقوش ثبت کرتے ہیں اور ہمارے انداز بیاں کو فصاحت و بلاغت کے فواروں سے بھی روشناس کراتے ہیں۔۔۔یہ ہم میں ایسا کردار پیوست کرتےہیں،جو بعد میں اوروں کے لیے چراغِ راہ ثابت ہوتا ہے۔آج ہماری قوم ایک ایسی شخصیت سے محروم ہوگئی،جس کا ذکر کرتے وقت میں اتنا لسانی احتیاط برتنے کی کوشش کرتا ہوں کہ کہیں غلطی سے کوٸی سطحی لفظ نہ نکل جائے۔۔۔ یہ سطور رقم کرتے ہوئے لاشعوری طور پر بھی میرے اوسان خطا ہورہے ہیں اور آبدیدگی کا عالم یہ ہے جیسے آب دریا نے میری آنکھوں کا انتخاب کیا ہو۔ ابر غم کی وجہ سمجھ نہیں آتا کہ کہاں سے ابتدإ کروں اور کہاں پہ ختم۔۔۔شبیر صاحب ایک علم کے پیکر تھے جن کے علمی چراغ کے سامنے کئی جانی مانی شعائیں بھی ماند پڑ جاتی تھیں اور فھم و ادراک کا عالم یہ تھا کہ جیسے سقراط کے علمی مکتب سے جام پی کر آئے ہوں۔ان کے علمی برتاؤ سے یہ عیاں تھا کہ ان میں درد سے لبریز دل اس قدر دھڑکتا تھا گویا خدمتِ خلق ان کی رگ و پے میں رچا بسا ہو۔۔۔ان میں فطرت نے یہ بات بہت پہلے سے انڈیل دی تھی کہ شاگردوں کی خاص صلاحیت کو پہلی نظر میں بھانپ لیتے تھے اور یہ گُن انہی لوگوں کا خاصہ ہوتا ہے جو بچوں اور شاگردوں سے خاص لگاؤ رکھتے ہوں۔۔۔اس کے علاوہ سماجی کاموں کے لیے انہوں نے جیسے اپنے آپ کو وقف کر رکھا تھا،کلاس روم ہو یا سماجی معاملات،گھر گھر کے پیچیدہ مسائل ہوں یا علاقے کے قابلِ غور مصائب، شبیر صاحب ہر جگہ اپنی موجودگی کا اس طرح احساس دلاتے تھے گویا خوشبو پھول سے پھوٹتی ہو۔۔۔
میں نے کئی سال ان سے نہ صرف استفادہ کیا بلکہ زندگی گزارنے کے ایسے گُر سیکھے جن کے بغیر شاید میں زندگی کے ہر موڑ پر وقتی ہچکولے کھاتا اور شاید سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملتا۔۔۔وہ صاحبِ عقل ہونے کے ساتھ ساتھ ہی معاملہ فھم اور بذلہ سنج بھی تھے۔۔۔ان کے شاگرد اور رفقإ اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کے یہاں ہر ایک کو یکساں طور اہمیت دی جاتی تھی،اور کوئی بھی کمتری یا برتری کے احساس سے نہ جھونجتا۔۔۔جس طرح ایک خلاق فنکار ایک مورتی کو پتھر سے نکالتا ہے،اُسی طرح شبیر صاحب ہر شخص سے قیمتی جوہر نکالنے میں ماہر تھے۔۔۔
ان کا درسی عالم اس دھارے سے مشبہ تھا،جو ہر ایک کے لئے سود مند ہوتا اور سرایت کا عالم یہ تھا کہ سر اٹھا کے بولتے۔
وہ یقیناً جسمانی طور پر ہمارے ساتھ نہ ہوں،مگر ان کی تعلیمات اور تراشے گئے ہیرے تمام لوگوں کو روشنی بخشتے رہیں گے۔۔۔اللہ ان کی قبر کو پُر نور کرے اور جنّت میں اعلیٰ مقام بخشے۔۔۔
راقم
بلال احمد پنڈت
استاد ہائیر ایجوکیشن