سری نگر30 اگست ,کے این ایس پیشہ سے فوٹوجرنلسٹ نے سوشل میڈیاپر پکائی ہوئی مچھلیاں بیچنے کےلئے ایک پیج بنایا۔وہ یہ بھول چکاتھا کہ اس نے سوشل میڈیا پرپکی پکائی مچھلیاںبیچنے کاپیج بنایاہے جب اُسے آرڈرملناموصول ہوئے ۔تین سال سے زیادہ عرصہ سے اب وہ یہ کاروبار سنبھال رہا ہے اورماہانہ15سے20کوئینٹل مچھلیاں بیج رہا ہے۔ولر کنارے رہائش پزیدایک فوٹوجرنلسٹ نے یہ کاروبار شروع کیاجس میں وہ اپنے گاہکوں کو پکی پکائی مچھلیاں گھر پہنچاکر فراہم کررہا ہیں۔کشمیرمیں مچھلی پکانا ایک فن ہے۔کشمیر نیوز سروس کے مطابق ذرائع ابلاغ سے وابستہ پیشہ ور کامچھلیاں بیچناکافی لوگوں کوعجیب لگے لگالیکن شعیب مسعودی کویہ بالکل بھی عجیب محسوس نہ ہوا۔ماڈربانڈی پورہ کے آبائی مسعودی پیشے سے ایک فوٹوجرنلسٹ ہیں اور فی الوقت ایچ ایم ٹی سرینگرکے مضافات ایچ ایم ٹی میں رہائش پزید ہیں۔اپنے پیشے کے علاوہ شعیب گھرمیں پکائی لذیذمچھلیاں پورے کشمیرمیں گاہکوں کوگھرپہنچاکربیچ رہا ہے۔شعیب کاکہنا ہے کہ کووِڈ- 19 وباءجب عروج پرتھی،تو اس نے یونہی انسٹاگرام پر’ولر فش فارآل ‘نامی پیج بنایا۔یہ خیال اس کے ذہن میں اُس سال رمضان کے مہینے میں آیا۔شعیب نے کہا کہ وہ مسلسل کچھ نیا کرنے کاسوچ رہاتھااوراس دوران اس کے ذہن میں مچھلیوں کاخیال آیااوراس نے ’ولر فش فار آل‘ کانام منتخب کیا۔شعیب نے کہا کہ انسٹاگرام کے بعد اس نے فیس بک وال پربھی ایک پیج بنایا۔ کچھ وقت کے بعد لوگوں نے اس کے بیج کوانسٹاگرام پرفالوکرناشروع کیالیکن اُسے کوئی آرڈر نہیں ملا۔شعیب نے یاد کرتے ہوئے کہا ،” میں نے یہ خیال ہی چھوڑدیاتھااوراس پرسنجیدگی سے سوچابھی نہیں تھا۔لیکن عید کے ایک دن قبل سب کچھ بدل گیا۔میں عیدمنانے اپنے گھربانڈی پورہ گیا۔عرفہ کومیں پورادن بیکار بیٹھاتھاجب غیر متوقع طور مجھے سرینگر سے تین چار آرڈرملے ۔تین آرڈرانسٹاگرام اورایک فیس بک پرملااورانہیں عید کے بعد پہنچاناتھا“۔اُس نے اعتراف کیاکہ یہ ایک حیران کن تھااورمیں فکرمندہوگیا۔شعیب نے کہا،”میں کافی تناﺅ میں آگیا کیوں کہ تب تک میں اِسے سنجیدگی سے نہیں لیاتھا۔اب مجھے یہ آرڈرگاہکوں کے گھرپہنچاناتھے ،مجھے کافی فکرہونے لگی کیوں کہ سوشل میڈیا پیج کے علاوہ اورکچھ تیار نہ تھا“۔اس دن شعیب کابہنوئی بھی بانڈی پورہ آیاتھااورشعیب نے اسے اس سارے معاملے اوراپنی فکرمندی سے آگاہ کیا۔شعیب نے اس سے صلاح مانگی اوراس نے شعیب کے آئیڈیا کوپسند کیااورحوصلہ بڑھایا۔اب شعیب نے عزم کے ساتھ آگے قدم بڑھایا۔اس دن اس نے بازار سے مچھلیاں خریدی اور گھروالوں کوانہیں پکانے کوکہااس کی ماں نے اس میں اس کوبھرپور تعاون دیا۔شعیب نے انہیں بتایا کہ اسے کسی بھی طور یہ تین چارآرڈرگاہکوں تک پہنچانے ہیں۔شعیب نے بتایا کہ اُسے یاد ہے کہ وہ کتنا بے چین تھااورساری رات سونہ سکااوررات بھرسوچتارہا کہ ان آرڈروں کوکیسے گاہکوں تک پہنچائے۔کیوں کہ اُسے معلوم نہ تھا کہ آگے کیسے بڑھاجائے اورگاہک تک کیسے مچھلیوں کو پہنچایاجائے۔اگلے روزاُس کے ذہن میں خیال آیاکیوں کہ ان پکائی مچھلیوں کومٹی کی ہانڈیوں میں بھرکرگاہک تک پہنچایاجائے۔یہ خیال اُسے بھایا اور اسی دن شعیب قصبے میں کمہاروں کی تلاش میں نکلا۔کئی ایک جو کاعمررسیدہ تھے،کے پاس جانے کے بعداُس نے ان سے مٹی کی ہانڈیاں طلب کی اور ان میں سے ایک اُسے اپنے گودام میں لے گیا جہاں دہائیوں قبل بنائی گئی مٹی کی ہانڈیوںکاڈھیرتھاجن پرگردجمی تھی۔کمہاروں نے اُسے بتایاکہ دہائیاں قبل انہوں نے یہ ہانڈیاں بنائی تھیں ،جوبک نہ سکی تھیں۔انہوں نے اُسے بتایاکہ مٹی کے برتن بنانے کافن اب معدوم ہوتاجارہا ہے اوراب وہ صرف کانگڑیوں کے’کنڈل‘بناتے ہیں۔شعیب نے کہا کہ میں نے انہیں ان کاسٹاک خریدنے کی پیش کش کی۔ جب مچھلیاں تیار ہوئیں توشعیب نے سرینگر کی راہ لی ۔پہلاآرڈر اُس نے شیخ پورہ بڈگام پہنچایا،دوسراجواہرنگر،ایک ٹینگہ پورہ ۔پہلادن اسی طرح گزرگیا۔شام کو شعیب کوانسٹاگرام پرمثبت تبصرے پڑھنے کوملے ۔اس طرح ولر فش حقیقی طوروجودمیں آیااوراب روزانہ تین چار آرڈرگاہکوں کو پہنچانے اس کا معمول بن گیا۔شعیب نے کہا کہ گاہکوں کے مثبت ردعمل کے بعد اب وہ اس کاروبار سے پوری طرح وابستہ ہوگیا اوراس نے کئی خواتین کوکام پرلیااور مچھلیاں اور سبزیاں خریدنے کےلئے ایک آٹوخریدا۔اب بانڈی پورہ میں اس کا باضابطہ ایک کچن ہے جہاں چھ سات لوگ مچھلیاں تیار کرکے پکاتے ہیں۔شعیب بنیادی طور اپنا مال ولرجھیل سے حاصل کرتا ہے۔اُس نے کہا،”میں انہیں کچھ زیادہ پیسے دیتاہوں ،کبھی کبھی پچاس روپے تک،تاکہ وہ مچھلیاں صاف کرکے دیں۔ہم انہیں سروں کے بغیرلیتے ہیں اور ان کے ٹکڑے کرکے پکاتے ہیں۔ایک ہانڈی کےلئے دوکلومچھلیوں کااستعمال کیاجاتا ہے اورانہیں سات ٹکڑوں میں کاٹ دیاجاتا ہے اور انہیںندروں،مولی،ٹماٹر ،اورساگ کے ساتھ پکاتے ہیں ۔ایک ہانڈی1600 روپے میں فروخت کی جاتی ہے۔“شعیب کامزیدکہناتھا،”ہم خام مصالحے کسانوں سے خریدتے ہیں اور گھرمیں اُنہیں پیستے ہیں۔“ اس وقت شعیب روزانہ 15سے20ہانڈیاں فروخت کرتاہے۔تاہم پورے کشمیرمیں ایک ہی دن میں ساری ہانڈیوں کو پہنچانا آسان کام نہیں ہے۔اس کےلئے شعبیب نے ایک ڈیلیوری کمپنی سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے وقت پرپہنچانے کی ضمانت نہیں دی۔تب سے اب شعبیب نے اپنے کچھ لڑکے کام پرلگادیئے ہیں ۔شعیب کاکہناتھا کہ چونکہ یہ خراب ہونے والاآیٹم ہے اسلئے زیادہ دیرتک انتظار نہیں کیاجاسکتا اور کبھی کبھی گاہکوں ،جوآرڈر دیتے ہیں،کے گھرمہمان ہوتے ہیں اس لئے ہانڈیوں کو کسی بھی طور مقررہ وقت پرپہنچانا لازمی ہے۔اب اس کےلئے شعیب نے ہرضلع میں ایک ایک بندے کورکھا ہے ۔وہ جہانگیر چوک میں آرڈر کوٹیکسی ڈرائیور کے حوالے کرتے ہیں جواُسے متعلقہ ضلع میں موجود بندے تک پہنچاتا ہے اور پھر وہ اُسے مطلوبہ جگہ تک پہنچادیتا ہے۔جموں کے آرڈر وہ ٹی آر سی میں ایک ٹیکسی ڈرائیور کے سونپتے ہیں جوشام تک جموں پہنچ جاتا ہے۔لوگوں کے ردعمل سے شعیب کافی حوصلہ مند ہیں ۔اب اس نے اپنی پروڈکٹوں میں اضافہ کیا ہے اوراسی نام سے دیسی مرغے،بطخ ،ہنس ، آچاراورشہدبھی بیجتاہےں۔اگرچہ اس کاروبار میں سرمایہ کی ضرورت ہے لیکن اس کی بکری بھی اچھی ہے۔شعیب کےلئے یہ کاروباراس لئے بھی باعث تحریک ہے کیوں کہ وہ جموں کشمیر سے باہر رہ رہے لوگوں تک بھی گھرمیں پکائی گئی مچھلیاں پہنچاتا ہےں ۔شعیب نے کہا کہ گھر سے دور افرادخانہ کو جب کشمیری مچھلیوں کاتحفہ ملتا ہے توان کے چہروں پر جس خوشی کااظہار ہوتا ہے وہ قابل دیدہوتا ہے۔شعیب نے اپنے کاروبار کوحکومت کے پاس رجسٹر کیا ہوا ہے۔شعیب کواب دبئی،سعودی عرب اوردہلی سے بھی مچھلیوں کے آرڈر ،موصول ہوتے ہیں۔قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ شعیب اپنے پیشے فوٹوجرنلسٹ کے طور بھی اپناکام جاری رکھے ہوئے ہیں۔