سرینگر: ۱۱؍ستمبر
جموں اینڈ کشمیر پریس کارپس (جے کے پی سی ) جو کہ خطے میں مختلف میڈیا تنظیموں کی نمائندہ ایسو سی ایشن نے بی بی سی کی جانب سے حال ہی میں شائع کئے گئے ایک مضمون زیر عنوان”کوئی بھی سٹوری آپ کی آخری ہو سکتی ہے۔کشمیر پریس پر بھا رت کا کریک ڈاؤن“ جو کہ یوگیتا لمائے نے لکھی ہے پر اپنا ردِ عمل ظاہر کر تے ہوئے اسے گمراہ کن اور حقیق سے بعید قرار دیا ہے ۔ایک بیان میں جے کے پی سی نے اس مضمون کو نہ صرف حقائق سے بعید کہا ہے بلکہ اس کو بدنیتی سے لکھا گیا مضمون کہا گیا ہے جو کہ کشمیر میں فروغ پارہے مین سٹریم میڈیا کوبدنام کر نے کی خاطر ایک آلہ ٔ کا ر کے بطور استعمال کیا گیا ہے۔صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، بی بی سی کا مضمون کشمیر کے 150 سے زیادہ اخبارات کے ساتھ ساتھ کام کر رہے مین سٹریم صحافیوں اور میڈیا ایڈیٹرز کے ساتھ کام کرنے والے مرکزی دھارے کے متعدد صحافیوں سے حقائق کی تصدیق کرنے میں ناکام رہا کیونکہ یہ لوگ رپورٹ میں پیش کی گئی غلط فہمیوں کا پر دہ فاش کر سکتے تھے ۔ نیوز آرٹیکل میں بے بنیاد آراءہیں جو توہین آمیز، بہتان آمیز اور ذلت آمیز ہیںاور کشمیر میں مرکزی دھارے کے میڈیا کی ساکھ کو داغدار کر رہی ہیں۔بی بی سی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ کشمیر میں صحافیوں کے لیے گھٹن کا ماحول ہے اور کہا ہے کہ غیرجانبدارانہ کوریج کی کوششوں کے لئے دھمکیوں اور گرفتاریاں ہیں۔ جے کے پی سی ان دعوو ¿ں کی سختی سے تردید کرتی ہے، اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ خطے میں پریس کی آزادی پر ہراساں کرنے یا پابندیوں کی ایسی کوئی مثال نہیں ہے۔لہذاءجے کے پی سی اس محاورہ کہ’کوئی بھی سٹوری آپ کی آخری ہو سکتی ہے“ کوبالکل بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دیتی ہے کیونکہ وادی میں ہزاروں صحافی بغیر کسی مسئلے یا پابندی کے کام کرتے ہیں۔جے کے پی سی اس بات پر زور دیتی ہے کہ دہشت گردی کی مدد اور حوصلہ افزائی کے الزام میں گرفتار افراد، جن میں کچھ خود ساختہ صحافی بھی شامل ہیں جو ہینڈ گرنیڈکےساتھ گرفتار کئے گئے ، فی الحال قانونی نظام کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ جے کے پی سی اس بات پر زور دیتا ہے کہ مقدمات کا فیصلہ میڈیا ٹرائل کے بجائے مناسب عدالتی ذرائع سے کیاجانا چاہئے ۔ ایسو سی ایشن نے یوگیتا لیمے کی رپورٹ پر غیر مصدقہ الزامات اور متعصب ذرائع پر انحصار کرتے ہوئے علیحدگی پسند نظریہ سے مستعار ایک بدنیتی پر مبنی بیانیہ کا پرچار کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ اس رپورٹ میں نہ صرف صحافتی سالمیت کا فقدان ہے جس کی کسی معروف خبر رساں ادارے سے توقع کی جاتی ہے بلکہ کشمیر کی زمینی حقیقت کو بھی غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔رپورٹ کا زیادہ تر انحصار گمنام ذرائع پر ہے، جو رپورٹ میں کئے گئے دعووں کیسچائی پر سوال کھڑا کرتے ہیں۔ شفافیت اور جوابدہی کے بغیر، یہ ذرائع ممکنہ طور پر رپورٹر کے تخیل کی پیداوار ہو سکتے ہیں یا وادی میں علیحدگی پسندانہ وابستگی یا سوچ رکھنے والے عناصر کی کا رستانی ہو سکتے ہیں ۔جے کے پی سی نے زور دے کر کہا کہ مضمون ادارتی اخلاقیات اور دیانتداری کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اشاعتی ادارے کی طرف سے ادارتی سالمیت اور مستعدی کی مکمل کمی کی عکاسی کرتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رپورٹ کے ہر لفظ نے کشمیر میں صحافیوں کےMorale کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اس طرح، جے کے پی سی واضح طور پر اور بیک زبان مطالبہ کرتی ہے کہ بی بی سی اپنے اس مضمون کو واپس لے اور کشمیرکی میڈیا برادری سے غیر مشروط معافی مانگے۔جے کے پی سی کے ممبران بشمول ڑاج دلوجا(سٹیٹ ٹائمز)،حافظ ایاز(ڑائزنگ کشمیر)،چسفیدہ شاہ (کشمیر سکین)،ظہور ہاشمی (ڈیلی آفتاب)،سجاد حیدر(کشمیر آبزرور)،بشیر منظر(کشمیر امیجز)،شمیم معراج(کشمیر مانیٹر)،محمد اسلم(کے این ایس)،منظور انجم (ڈیلی عقاب)،ارشد رسول(ڈیلی گڑیال)،جاوید شاہ(گڈمارننگ کشمیر)،اعجاز رشید(ایر ا آف کشمیر)،للت گوجا(مارننگ کشمیر)،شیخ سلیم (کشمیر کنوینر)،کیپٹن مورتی(گریٹر جموں )،سید بشارت (کشمیر ڈسپیچ)،بلال بشیر ( سرینگر جنگ )،مختار ڈار(ڈیلی فش آئی ) ،فاروق احمد ( سرینگر میل ) ،وسیم شاہ(کشمیر ریز)اور اقبال شاہ (ڈیلی اُڑان)نے بیک زبان بی بی سی کے رپورٹ کی مذمت کی ہے اور بی بی سی پر زور دیا ہے کہ وہ اس سٹوری کو فوراً واپس لیتے ہوئے جموں وکشمیر کی میڈیا فیٹر نٹی سے غیر مشروط معافی مانگ لیں ۔