مضمون نگار:
راگھو چندرا
آئی اے ایس کیڈر کے ضابطوں میں ہم کس طریقے سے اصلاحات دیکھنا پسند کریں گے؟ کیا اولیت مقامی ہونے یا اُن کے کُل ہند کردار کو دی جانی چاہئے؟ کیا ریاستوں کو اُن آئی اے ایس افسروں کے کیریئر سے متعلق مجموعی حقوق استعمال کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے، جو انہیں دیئے گئے ہیں ؟ کیا انفرادی طور پر افسران کو اس بات کی اجازت دی جانی چاہئے کہ وہ خاص طور پر یہ بیان کریں کہ وہ کس جگہ خدمات انجام دینا چاہتے ہیں؟
یہ سوالات کچھ ریاستوں کے اُ س سخت رد عمل کے تناظر میں انتہائی موزوں بن جاتے ہیں، جو انہوں نے آئی اے ایس (کیڈر) ضابطے – 1954 میں مجوزہ ترامیم سے متعلق ظاہر کیا ہے، جس میں مرکزی حکومت میں فائز کئے جانے والے افسران کے بارے میں فیصلہ ، مرکزی حکومت متعلقہ ریاستوں کے ساتھ صلاح ومشورہ سے کرے گی اور کسی طرح کی نا اتفاقی کی صورت میں، مرکزی حکومت کا فیصلہ حتمی ہوگا۔
وسیع تناظر میں، اس پیچیدہ مسئلے کا بہترین جواب ان الفاظ میں پنہا ں ہے ، جو 70 سال پہلے سردار پٹیل نے کہے تھے، جو کہ محب الوطن منتظم تھے، جنہیں سول سروسز کا سرپرست رہنما سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے یہ الفاظ، نو وضع اس انتظامی ڈھانچے سے توقعات کے بارے میں کہے تھے؛ ‘‘آئی سی ایس اور آئی پی کے جانشین ، جو کہ ان خدمات میں موجود وسیع خلیج کو پر کرنے کے علاوہ ملک کے اتحاد میں حصہ رسدی کریں گے اور انتظامی ڈھانچے کو مستحکم کریں گے ، نیز کارکردگی اور یکسانیت کے اعلیٰ معیار کے لئے راہ ہموار کریں گے’’۔
مرکزی حکومت ، باوقار یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی)کے ذریعہ آئی اے ایس افسران کی بھرتی کرتی ہے، البتہ ان کی خدمات کو مختلف ریاستی سرکاروں کے تحت رکھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ اس نوکری سے متعلق شرائط کا ایک حصہ ہے کہ انہیں ریاستی اور مرکز دونوں کے تحت خدمت انجام دینی ہوگی، اس کے باوجود مرکزی ڈیپوٹیشن کے لئے کوئی کم سے کم مدت طے نہیں ہے۔ اس وقت کسی ریاست میں افسران کی منظور شدہ افرادی قوت میں سے 40 فیصد ، مرکزی مخصوص ڈپوٹیشن یا سی ڈی آر ہے، جس کے بل پر کسی ریاست میں آئی اے ایس افسران مرکزی ڈپوٹیشن پر آسکتے ہیں۔ ماضی میں بہت سے کیڈرس میں ، جیسے کہ انتشار سے دوچار شمال مشرق میں، دہلی میں کام کرنے کے تئیں بہت زیادہ دلچسپی تھی اور اس طرح سی ڈی آر کی خلاف ورزی ہوئی تھی۔ البتہ وقت کے ساتھ ساتھ ریاستوں میں زمینی سطح کا ماحول اور صورت حال بڑے پیمانے پر تبدیل ہو گیا ہے- افسران کے پاس بہت سے قلمدان ہیں اور اس لئے وسائل کا کارروائی دائرہ اور کام کا حلقہ نمایاں طور پر وسیع ہے- جس سے کسی ریاست میں تقرری ترغیب جاتی ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ڈپٹی سکریٹری اور ڈائریکٹر لیول پر دہلی کی پوسٹنگس کو ڈیسک پر مبنی کام سمجھا جاتا ہے، جس میں عوام کے ساتھ مشکل ہی سے کوئی رابطہ ہو تا ہے اور اس میں تجربے اور جدت کاری کے لئے محدود مواقع ہوتے ہیں۔ لہذا ہمارے سامنے نوجوان افسران کا یہ مشکل پیدا کرنے والا رجحان ہے ، جو مرکزی حکومت میں کام کر کے تجربہ حاصل کرے بغیر ہی اس وقت تک ریاست میں رہنے کا انتظام کرتے ہیں، جب تک کہ وہ جوائنٹ سکریٹری کے عہدے تک نہیں پہنچ جاتے۔
اس بات کے مد نظر کہ سی ڈی آر کا استفادہ 2011 میں 25 فیصد سے کم ہو کر آج 18 فیصد آگیا ہے۔ حکومت ہند کا یہ اقدام قطعی طور پر منصفانہ ہے کہ مرکزی پوسٹنگ کے لئے افسران کی باقاعدہ تعداد کے تئیں ریاستوں کا عہد حاصل کیا جائے۔ آئی اے ایس افسران تمام سطحوں پر حکومت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اور ہر ایک وزارت کو چند ایسے ڈپٹی سکریٹریوں اور ڈائریکٹرس کی ضرورت ہوتی ہے، جن کے پاس کلکٹروں اور مختلف ترقیاتی پروجیکٹوں کے انتظام کاروں کا تجربہ ہو، جو ایسی پالیسی سازی میں مدد فراہم کرسکیں، جو زمینی سطح کے ہوں اور مستفید متعین ہوں۔ کچھ ریاستوں کا یہ اعتراض کہ اس سے افسران، ریاستوں کو اپنی بہترین خدمات فراہم نہیں کر سکیں گے، جس کی وجہ یہ ہوگی کہ انہیں یہ پتہ نہیں ہوگا کہ ان کی اگلی تقرری کہاں ہو گی، درست نہیں ہے؛ وہ یہ فراموش کرتی ہیں کہ آئی اے ایس افسران کا باری باری سے مرکزی حکومت اور ریاستوں میں کام کرنا، ان کے بہترین مفاد میں ہے تاکہ وہ ملک گیر اور ریاست مخصوص منصوبہ بندی کے متناسب امتزاج کے ساتھ اپنا تجربہ بڑھا سکیں۔ اس طرح کی معلومات اور تجربے کی شراکت بھی ریاستوں کے لئے اس بات کو یقینی بنانے کی غرض سے انتہائی اہم ہے کہ مرکزی پالیسی سازی میں ان کے مفادات کا دھیان رکھا جائے۔
افسران ، حکومت ہند کے مقابلے میں ریاستوں میں غیر یقینی کی بڑی صورت حال سے واقف بھی ہوسکتے ہیں اور نہیں بھی، جس کی وجہ سیاسی قیادت اور اقتدار میں بار بار تبدیلی ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم دیکھتے ہیں کہ افسران کے جلدی جلدی تبادلے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو خاموشی کے ساتھ اُن لوگوں کی مخالفت کرنے کے لئے سزا دی جاتی ہے جو اقتدار کے قریب ہوتے ہیں، یہی نہیں مرکز میں ڈپوٹیشن پر جانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ دوسری جانب کچھ ایسے افسران ہو تے ہیں، جو ایسی سرپرستی میں رہتے ہیں جو انہیں مقامی وفاداری کے صلے میں ملتی ہے – اور وہ ریاستوں کے لئے ناگزیر ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو ایسے ہوتے ہیں، جو ریاست سے باہر کسی دوسری جگہ پراپنے سروس کی مدت میں ایک بار بھی پوسٹنگ کے لئے نہیں جا پاتے ہیں۔
لازمی ہے کہ اسی وجہ سے ایک ایسا طریقہ کار وضع کرنا اہم ہے جس میں آئی اے ایس افسران اپنے کیریئر کا کم سے کم ایک تہائی حصہ مرکزی سرکار میں دیں، جس میں سے کم سے کم 7 سال وہ ڈپٹی سکریٹری / ڈائریکٹر کی سطح پر رہنی چاہئے۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ آئی اے ایس کو مرکز کی ایک اعلیٰ ترین کور کے طور پر تشکیل دیا جائے، جس میں قوم کے تئیں مکمل عہد ہو، اور ریاست کیڈر کے تئیں کسی طرح کی مقامی وفاداری کا عنصر نہ ہو، جہاں وہ پیدا ہوئے ہوں۔ ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے جب افسران ریاست میں اپنے آرام دہ زون سے باہر وقت گزاریں – اگر کوئی افسر دہلی میں کام کر کے خوش نہیں ہے تو کسی دوسری ریاست میں بھی پوسٹنگ قابل قبول ہونی چاہئے – اس طرح افسران اپنی مقامی ذہنیت کے اثرات کو دور کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ صرف اسی صورت میں آئی اے ایس کا کل ہند کردار مخصوص ہو سکے گا – اور جیسا کہ سردار پٹیل نے کہا تھا کہ وہ ملک کے اتحاد اور حکمرانی کے معیارات میں یکسانیت کے براہ راست فوائد فراہم کرسکیں گے۔
دوسری سطح پر بھرتی کے وقت یہ واضح طور پر صاف کردیا جانا چاہئے کہ افسران کو مرکزی حکومت اور ریاستوں دونوں میں ایک بیان کردہ مدت کے لئے خدمات انجام دینی ہوں گی۔ ایک شمولیاتی اور جدید ذہنی رجحان پیدا کرنے کے لئے ، سرکاری خرچے پر دنیا کی انتہائی بہترین یونیورسٹیوں میں تربیت کو کیریئر کی منصوبہ سازی کا ایک حصہ بنایا جانا چاہئے۔ ایک آن لائن نظام وضع کیا جانا چاہئے، جس پر افسران کو اپنی شعبہ جاتی مہارتوں اور پسند کے مطابق سرکاری نوکریوں میں اپلائی کرنے کی سہولت دستیاب ہو۔ اگر افسران اپنے کیریئر میں محدود مدت کے لئے نجی شعبے میں بھی جانا چاہتے ہوں تو انہیں کارپوریٹ دنیا کے بہترین عوامل کا تجربہ حاصل کرنے کے لئے باہر جانے کی اجازت دی جانی چاہئے، تاکہ ایسا حیاتیاتی نظام وضع کیا جاسکے جس میں نجی شعبہ اور سرکاری شعبہ تال میل کے ساتھ کام کرسکیں۔
آئی اے ایس افسران سے بہترین استفادہ اسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب انہیں بہترین صلاحیتوں سے لیس کیا جائے اور ان کی تقرری، مرکزی حکومت اور ریاستوں میں ، عالمی تناظر میں مؤثر طور پر کام کرنے کے لئے ،مہارت اور تجربہ کے ساتھ، اعلیٰ ترین کور کے طورپر کی جائے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ ریاستیں ان سے مؤثر طور پر استفادہ حاصل کرسکیں اوراپنی بہترین کاوشوں کو بروئے کار لانے کے لئے، انہیں کام کرنے کے لئے ساز گار ماحول فراہم کیا جاسکے، مرکز کے لئے یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ وہ ریاستوں کے ساتھ ایسی رسائی اپنائیں، جو مشا ورتی ، قابل برداشت اور مشفقانہ ہو۔
نوٹ:مضمون نگارسابق آئی اے ایس، حکومت ہند میں سابقہ سکریٹری ہیں۔