بابر نفیس
ڈوڈہ، جموں
ڈیجیٹل دور میں جموں و کشمیر کے بیشتر علاقے آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔وہی اگر ضلع ڈوڈہ کے ایک علاقع دیسہ کی بات کی جائے جو کم از کم پانچ ہزار آبادی پر مشتمل ہے۔جس علاقے سے سینکڑوں طلبا تعلم کو جنگ سمجھتے ہیں۔ وہی دیسہ کے لوگ آج بھی بجلی کی کرن کے منتظر ہیں۔جہاں ہندوستان میں سب سے زیادہ بجلی کی پیدا وار ضلع ڈوڈہ کے چناب ویلی سے ہوتی ہے۔ اسی ڈوڈہ کے پہاڑی علاقہ کا بجلی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہونا سراسر نہ انصافی ہے۔ ملک کو روشن کرنے والا ڈوڈہ کا خود کا علاقع دیسہ تاریکی کا شکار ہے۔جہاں آج تک بجلی کی کرن پہنچی ہی نہیںہے۔بھلے ہی آپ کو پڑھ کر یقین نہیں آ رہا ہوگا، لیکن حقیقت یہی ہے کہ آزادی کے 75سال بعد بھی ملک کا ایسا علاقع موجود ہے جہاں ابھی تک بجلی کی تاریں نہیں پہنچی ہیں۔
بجلی ایک بنیادی ضرورت ہے۔یہاں تک کہ تعلیمی نظام کو بڑھاوا دینے میں بھی اس کا ایک اہم کردار ہے۔ اگرچہ کویڈ۔19اور لاک ڈاؤن کے حوالے سے بات کی جائے تو اس نے تعلیمی نظام کا حال بدتر کر دیا ہے کیونکہ لاک ڈون کے ایام میں اکثر تعلیمی نظام کا جو سلسلہ تھا وہ آن لائن کردیا گیا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جہاں ابھی تک لوگوں کو بجلی فراہم نہیں کی گئی ہے وہاں کا تعلیم نظام موبایل فون پر کس طرح سے قائم کرایا جا سکتا ہے؟ اس سلسلہ میں علاقہ کے کئی سماجی و سیاسی کارکنوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ لاک ڈون کے ایام میں تعلیمی نظام کی حالت انتہائی ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ صحافی وسماجی کارکن اشتیاق دیو نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ضلع ہیڈ کواٹر سے صرف تیس کلومیٹر کی دوری پر دیسہ ایک ایسا علاقہ ہے جو قدرتی خوبصورتی سے مالا مال ہے لیکن بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔دیسہ میں بجلی، پانی، سڑک اور ہسپتال جیسی بنیادی سہولیات سے لوگوں کو محروم رکھا گیا ہے۔ اگرچہ مرکزی سرکار کی جانب سے یہ بتایا جا رہا تھا کہ جموں و کشمیر کے ہر علاقے کو بجلی جیسی بنیادی سہولیات فراہم کی جائے گی لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ دیسہ آج بھی اس ڈیجیٹل دور میں اس سہولیات سے محروم ہے۔انہوں نے کہا کہ بجلی کے مطالبہ کے لئے کئی مرتبہ ضلع کے ہیڈکوارٹر میں احتجاج کیے گئے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ حکومت و انتظامیہ کی جانب سے اس پر کوئی بھی اقدامات نہیں اٹھائے گئے اور نہ ہی گورنر انتظامیہ کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے آیاہے۔
اس کے علاوہ ضلع ترقیاتی کونسلر عاصم ہاشمی نے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات عیاں ہیں کہ ضلع ڈوڈہ سے بہنے والا چناب جس کی بجلی بیرون ملکوں کوبھی روشن کرتی ہے اور اس سے کئی طرح کے فوائد اٹھائے جا رہے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے ضلع ڈوڈہ کا اکثر حصہ آج بھی بجلی کی کرن کا منتظر ہے۔انہوں نے کہا کہ جن علاقوں کے لوگ سادگی کی زندگی جی رہے ہیں۔ حکومت کے ساتھ درماندگی نہیں کرتے، حکومت کے ساتھ لڑائی نہیں لڑتے ان کے ساتھ اس طرح کی ناانصافی کرنا سراسر غلط ہے۔بجلی کی کمی کی وجہ سے علاقع کے سینکڑوں طلباء و کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے۔کیونکہ لاک ڈون کے ایام میں تمام تعلیمی نظام کو انٹرنیٹ کے ذریعے قرار دیا گیا۔لیکن جن علاقوں میں بجلی جیسی بنیادی سہولیات فراہم نہیں ہے ان علاقوں کے طلباء کے مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔مزید بات کرتے ہوئے شاداب سہروردی نے کہا کہ اگر جموں کشمیر کے علاقے ترقی کی راہ میں پیچھے ہیں تو اس کی اہم وجہ یہی ہے کہ آج بھی بجلی جیسی بنیادی سہولیات کا ہونا از حد ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ ضلع ڈوڈہ کے کچھ علاقہ جات ایسے ہیں جہاں پر بے روزگاری آسمان کو چھو رہی ہے۔ لیکن وہاں کے پڑھے لکھے جوان در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ وہاں کے پڑھے لکھے نوجوان نشہ خوری کی طرف جا رہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس کی اہم وجہ یہی رہتی ہے کہ جب بھی حکومت کی طرف سے ملازمت کے لئے فارم بھرنے کو وقت دیا جاتا ہے تو ان لوگوں کو وقت پر تفصیل فراہم نہیں کی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ تفصیلات انٹرنیٹ سے فراہم کی جاتی ہے جبکہ موبائل استعمال ان علاقوں میں بہت کم رہتا ہے۔ موبائل چارج کرنے کے لیے لوگوں کو آج بھی سینکڑوں کلومیٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے اور پھر جا کے موبائل کا استعمال ممکن ہے۔ وقت پر ان لوگوں کو یہ تفصیلات نہ ملنے کی وجہ سے ہمارے یہاں ان علاقوں کے تعلیم یافتہ نوجوان بیروزگارہیں۔
اس کے علاوہ سرشاد نٹنوبلاک ڈویلپمنٹ چیئرمین نے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج کے اس دور میں بجلی کی بنیادی سہولیات کا ہونا از حد ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ آج ہمارا ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا ڈیجیٹل ہو چکی ہے۔جبکہ ڈیجیٹل دور میں پانی کی طرح انٹرنیٹ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔انٹرنیٹ سے ہر طرح کی جانکاریاںحاصل کی جا رہی ہیں اور خاص کر موجودہ وقت میں تعلیم کا سارہ نظام انٹرنیٹ کے ذریعہ ہی چل رہا ہے۔انہوں نے علاقہ کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ بجلی کی سہولیات کا نہ ہونے کو ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا کہ آج کے زمانے میں کسی علاقہ میں بجلی کانہ ہونا شرم کی بات ہے۔ مقامی دلبرشاھ کے مطابق علاقہ میں بجلی کی فراہمی کے لئے آج تک محکمہ کی طرف سے کوئی بھی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کئی مرتبہ علاقہ کے لوگوں نے انتظامیہ کے نام خط لکھے۔لیکن کوئی بھی اثر دیکھنے کو نہیں ملا جس سے علاقہ میں بجلی جیسی بنیادی سہولیات کو پورا کیا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ 2017 سے جموں و کشمیر کو مکمل بجلی فراہم کرنے کا دعوی کیا جا رہا ہے۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
انہوں نے حکومت بالا سے یہ التجا کی کہ فوری طور پر ان علاقوں میں بجلی فراہم کی جائے تاکہ یہاں کے بچے بھی اپنا مستقبل بنا سکے۔جہاں اس دور میں اتنے مشکل حالات سے ایک طلباء کو گزرنا پڑتا ہے تو اس کے لئے کتنا مشکل ہو گا جو ان علاقوں میں رہنے کے باوجود وہ اپنے امتحانات میں حصہ لیتا ہوگا؟ا نہوں نے ضلع ترقیاتی کمشنر سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں ایک کمیٹی تعینات کی جائے جو تمام علاقہ جات کا دورہ کرکے ایک فہرست مرتب کرے اور متعلقہ محکمہ ان علاقہ جات میں بجلی جیسی بنیادی سہلوت کو یقینی بنائے ۔تاکہ دیسہ کی عوام کو بھی اپنے گھر کے روشن ہونے کی امید قائم باقی رہے۔