کل یعنی24جنوری کو بھ ارت بھر میں لڑکیوں کا قومی دن منایا گیا ۔یہ دن ہر سال پو رے ملک میں لڑ کیوں کو با اختیا ر بنانے اور انہیں لڑ کوں کے مساوی حقوق اور اختیا رات دینے کے حوالے سے بیداری پیدا کر نے کی غرض سے منایا جا تا ہے ۔اس دن پو رے ملک میں تقاریب کا اہتمام ہو تا ہے ۔سیا سی لیڈران ،مذہبی لیڈران ،بیو روکریٹ ،قانون دان اور دیگر لوگ ان تقاریب کے دوران شعلہ بیا ن تقریریں کر تے ہیں اور لڑ کیوں کو ان کے حقوق عطا کر نے کے حوالے سے سماج کو اس کی ذمہ داری یا د دلا تے ہیں ۔تاہم اس دوران سوچنے اور غور و فکر کر نے کی با ت یہ ہے کہ ہم اپنے سماج کے اندر لڑ کیوں کو مساوی حقوق اور اختیارات تفویض کر نے میں پچھلے چہتر سالوں میں کتنا کا میا ب ہو ئے ہیں یا اس سلسلے میں سماجی اور حکو متی سطح پر جو کو ششیں آج تک کی گئی ہیں وہ کتنی ثمر آور ثابت ہو ئی ہیں ۔ہما رے ملک میں ایک زمانہ وہ بھی تھا جب کسی عورت کے شوہر کے انتقال پر اس کی بیو ی کو بھی ستی کیا جا تا تھا اور یہ رسم کئی صدیوں تک ہما رے ملک کے اندر جا ری رہی ۔پھر وہ وقت بھی آیا جب لڑ کیوں کو دوران حیض گھروں کے اندر الگ کمروں میں قید کیا جا نے لگا او۵ر انہیں منحوس سمجھا جا نے لگا ۔اس مسئلہ پر اگر چہ کا فی تگ و دو اور کو شش کے بعد کسی حد تک قابو پا لیا گیا ہے تاہم سچ یہ ہے کہ آج بھی ہما رے ملک کے کئی علا قوں میں لڑ کیوں کو دوران ِ حیض قید کر کے رکھا جا تا ہے اور انہیں گھر کے دیگر افراد کے ساتھ گھل مل جا نے کی اجا زت نہیں دی جا تی ہے ۔ایام ِ حیض کے دوران ویسے ہی لڑکیاں ذہنی اور نفسیاتی طور بڑ ے دبا ئو ک شکا ر ہو جا تی ہیں اور اس دوران جب گھر کے افرادکا ان کے تئیں اس طرح کا رویہ ہو تو ان پر کیا گزرتی ہو گی یہ اُن لڑ کیوں کے سوا کو ئی نہیں جا ن سکتا۔شادی کے بعد جب لڑ کیوں اپنے والدین کے گھر کو خیر با د کہہ کر اپنے سسُرال چلی جا تی ہے تو اس کے لئے اپنے والدین کے گھر کو نہ جا نے کیوں اور کس اخلاقی جواز کے تحت پرایا بنا دیا جا تا ہے ۔یہ وہی گھر ہو تا ہے جس گھر کے لئے کلہ تک یہی لڑ کی نہ جانے کس کس طرح سے قربا نیاں دیتی تھی ۔اس گھر کی تزئین و آرائش میں نہ جا نے اس نے کتنی راتوں کی نیندیں حرام کی ہو تی ہیں ۔اس لڑ کی کے لئے وہی ما ں باپ ،وہی بہن بھا ئی ،وہی ہمسائے اور رشتہ دار غیر ہو جا تے ہیں جن کی با نہوں میں کھیل کو د کر یہ بڑی ہو ئی تھی اور یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ اس کو شادی کے بعد سسُرال والوں یا پھر تقدیر کے رحم و کر م پر چھو ڑ دیا جا تا ہے ۔سسُرال میں اس نازک جا ن کو کن کن صعوبتوں ،تکا لیف اور مسائل کا سامنا کر نا پڑ تا ہے ،اس سے کسی کو کو ئی واسطہ نہیں ہو تا ہے اور پھر ہمارے جیسے معاشرے میں شہلی پورہ اننت نا گ جیسے واقعات پیش آجا تے ہیں ۔پچھلے چند سال کے دوران ہما رے معاشرے میں ایسے درجنوں واقعات پیش آئے ہو ں گے جن میں کہیں کسی معصوم لڑ کی کو سسُرال والوں نے مٹی کا تیل چھڑک کر نذر ِ آتش کر دیا اور کہیں کسی لڑ کی نے ازخود حالات سے تنگ آکر خود کُشی یا خود سوزی کر لیتی ہے ۔تعلیم و تعلم کے معاملہ میں بھی ہم اپنی بچیوں کو اس سطح پر لا نے میں نا کام ہو ئے ہیں جس سطح پر ہم نے لڑ کوں کو رکھا ہوا ہے حالانکہ یہ با ت بھی سچ ہے کہ اس نہج میں کسی حد تک تبدیلی بھی ہوئی ہے اور لگا تا ر ہو رہی ہے ۔وراثت کے اندر حصہ دینے کی با ت جب آتی ہے تو ہم میں سے ہر ایک کو جیسے سانپ سونگھ جا تا ہے حالانکہ اسلام اور دیگر مذاہب نے بھی لڑکیوں کو وراثت میں حصہ دینے کی وکالت کی ہے ۔ضرورت اس با ت کی ہے کہ تقریروں سے زیا دہ زمینی سطح پر عملی کام کیا جا ئے تاکہ بچیاں بوجھ نہیں گھروں کی ملکا ئیں بن جا ئیں ۔