افتخاراحمدقادری برکاتی
8954728623
اس امر کی تصدیق آئے دن اخبارات سے ہوجاتی ہے کہ فلاں شہر میں ایک دوشیزہ کی اجتماعی عصمت دری کی گئی اور پولیس مزید تفتیش کر رہی ہے-فلاں شہر کی ایک ریلوے ملازمہ لڑکی کی دفتر سے واپسی میں عزت لوٹنے کے بعد ملازموں نے اسے قتل کر ڈالا اور فلاں محلے میں کالج سے آتی ہوئی دوشیزہ کی کئی ایک نے آبروریزی کی، پولیس جائے واردات کا معائنہ کر رہی ہے وغیرہ وغیرہ- آج کے ماڈرن دور میں عورتوں اور لڑکیوں، امریکہ جس کا شمار ترقی یافتہ براعظموں میں ہوتا ہے کی مرد نما عورتوں کی سگی بہن بننا چاہتی ہیں- جہاں ہر پانچ منٹ پر ایک عورت کا دامنِ عصمت تار تار کیا جاتا ہے- یعنی چوبیس گھنٹے میں دوسو اٹھاسی عورتوں اور دوشیزاؤں کے ساتھ شہوت اور نفسانیت اور درندگی کا کھیل کھیلا جاتا ہے- جس کی وجہ صرف اور صرف اس آیتِ کریمہ کی تعلیم سے لاپرواہی ہے-
،، اور تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ ہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی،،( سورہ احزاب، آیت نمبر 33)
ایک مشہور مؤرخ نے تاریخ عالم کا نہایت ہی گہری نظر سے مطالعہ کرنے کے بعد اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انسانی معاشرے کی تباہی و بربادی میں عورتوں کی آزادی و بے رہروی اور بے پردگی کو بڑا دخل ہے- ذرا غور تو کریں کہ خواتین کی بے پردگی نے انہیں جسمانی آرائش و زیبائش کا خوگر بنا دیا- پھر اس نے بے حیاء کی صورت اختیار کر لی بے حیاء نے عریانیت کا جامہ پہن لیا، اور عریانیت نے پردہ نشینوں کو بدکاری کی دہلیز پر کھڑا کیا- نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ یورپ و امریکہ اب ہندوستان بھی انسانوں کا مسکن نہیں بلکہ حیوانوں کے جنگل معلوم ہونے لگے ہیں- اور اس بے حیائی کے ثمرے میں خواتین کے اغوا اور زنا کی وارداتیں عام ہونے لگیں- مرد جنسی امراض میں مبتلاء ہونے لگے عورتوں کا تقدس پامال ہونے لگا-
المختصر حالات اتنے نازک موڑ اختیار کر چکے ہیں کہ جس کا سد باب ایک اہم مسئلہ بنتا چلا جارہا ہے- دور جدید میں عورتیں ترقی اور آزادی کی دھن میں اگرچہ مغربیت کے پیچھے بے تحاشہ دوڈ رہی ہیں- لیکن اب محض اخبارات و رسائل اور تجارت خانے کی زینت بن کر نفع اندوزی کا ایک خوبصورت اور مؤثر وسیلہ بن کر رہ گئی ہیں- جہاں جہاں بھی خواتین کو جگہ دی جارہی ہے احترام کے فرض سے نہیں بلکہ تجارت چمکانے اور نفع اندوزی کی غرض سے دی جا رہی ہے- تجارت میں عورت، سیاست میں عورت، سرکاری دفاتر میں عورت، پرائیویٹ دفاتر میں عورت، یہاں عورت وہاں عورت نہ جانے کہاں کہاں عورت یعنی کوئی ایسا گوشہ نہیں جہاں ان کا فتنہ انگیز وجود موجود نہ ہو – ہر سو عورت ہی عورت کا دور دورہ ہے- ہر خطے میں ان کی حکمرانی ہے- حقیقت تو یہ ہے کہ عورت پر اسلام کی نظر مشفقانہ ہے اور جدید معاشرے کی نظر خالص تاجرانہ ہے-
پردہ خواتین کی زینت اور پاسبان ہے:
جس طرح مرد وعورت ایک دوسرے سے مکمل طور پر علیحدگی کی صورت میں ایک پاکیزہ معاشرہ تشکیل نہیں دے سکتے یوں ہی حقوقِ نسواں آزادء نسواں کے نام پر آزادانہ اور غیر مشروط اختلاط نہ پاکیزہ ماحول پیدا کرسکتا ہے- اور نہ ایسا معاشرہ وجود میں آسکتا ہے- جس میں نیک نفس پاک باطن نسل انسانی پروان چڑھ سکتے انہیں حدودِ اعتدال میں رہتے ہوئے انسان کو آزاد رکھنے کا نام شریعت مطہرہ کی زبان میں پردہ ہے-
پردہ قرآن کریم کی روشنی میں:
’’اور مسلمان عورتوں کو حکم دو- اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں- اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں- مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے- اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں- اور اپنا سنگار ظاہر نہ کریں- مگر اپنے شوہروں پر‘‘- (سورۃنور)
آیتِ مذکورہ میں مسلمان عورتوں کو وہ احکام بتائے جارہے ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر وہ اپنی عزت ناموس اور عفت و آبرو کو بدمعاش مردوں کی ہوس ناکیوں سے محفوظ و مامون رکھ سکتی ہیں- کیونکہ بے پردہ عورت کی حیثیت وہی ہے جو ایک کھلے ہوئے مکان یا دوکان کی ہوتی ہے- جب۔مکان کھلا ہوگا تو چور کی بری نظریں پڑیں گی- تو نیت بھی بری ہوگی- اور یوں وہ ہاتھ صاف کرنے اور چوری کرنے پر آمادہ ہو جائے گا- ویسے ہی جب بے پردہ عورت پر نظر بد پڑے گی تو نیت میں ہیجان برپا ہوگا اور یوں ہی انسان زینہ بہ زینہ بد کاری کی طرف راغب ہو جائے گا- پھر ایسے نازک موڑ پر آکر بعید نہیں کہ آدمی زنا کا ارتکاب کر بیٹھے- معلوم یہ ہوا کہ بد نگاہی اور بد نظری ہی زنا کی پہلی سیڑھی ہے- اسی کی بدولت فحش کاریوں کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں- اور چونکہ عورت اپنی فطری کمزوری کی بنا پر دوسروں سے بہت جلد متاثر ہوجاتی ہے- لہذا شریعتِ مطہرہ مردوں کی طرح ان سے صرف غض بصر اور حفظ فرج ہی کا مطالبہ نہیں کرتی بلکہ ان کو عورتوں کے مخصوص احکام کا پابند بناتی ہے- اور انہیں سمجھاتی ہے کہ آرائش و زیبائش کا شوق تمہیں کہیں غلط راہوں پر نہ ڈال دے اور ایسا نہ ہو کہ تمہارا شوق تمہیں عزت و ناموس سے محروم کر کے بے حیاء و بے پردگی اور آوارگی و بد چلنی کے غار عمیق میں ڈھکیل کر تمہاری دنیا و آخرت دونوں ہی تباہ و برباد کردے اور تسکینِ شوق کے نشہ میں مخمور ہوکر تم کہیں دین و دنیا ہی سے نہ ہاتھ دھو بیٹھو- غرض چادر و چہار دیواری کے حصار سے نکل کر باہر چھلانگ لگانے والی عورتیں خود اپنی زندگی ہی سے بے زار،دام تزویر میں گرفتار اور حرماں نصیبی کا شکار ہو سکتی ہیں- بلکہ ہورہی ہیں- جبکہ مذہب اسلام انہیں انہی کے لئے انہی کے تقدس انہی کی حرمت اور انہیں اپنی ہی عزت و ناموس کے ساتھ زندگی گزار نے کا ڈھنگ سکھاتا ہے- اور بنیادی طور پر یہ ہدایت دیتا ہے کہ عورتیں اپنی نگاہیں نیچی رکھیں- اور اپنی پارسائی اور عزت و ناموس کی حفاظت کریں- اس پر بدکاری کا داغ نہ آنے دیں- اپنی آرائش و زیبائش اور اپنا بناؤ سنگار کسی اجنبی کی نگاہ میں نہ آنے دیں- اپنے دو پٹے اہنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں تاکہ سر اور سینہ نہ کھلا
رہے- زمین پر اپنے پاؤ زور سے نہ رکھیں کہ ان کے زیور کی جھنکار غیر مرودں کے کان میں نہ پڑے-
پردہ احادیث کی روشنی میں:
ایک مرتبہ حضرت حفصہ بنت عبد الرحمن رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ باریک دوپٹہ اوڑھے حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ نے ان کا دوپٹہ چاک کر دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ نور میں کیا فرمایا ہے اور اس تنبیہ کے بعد ایک دبیز چادر منگوا کر حضرتِ حفصہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو عنایت فرمائی- (ابو عبداللہ محمد بن سعد زہرہ طبقات ابنِ سعد جلد نمبر آٹھ صفحہ نمبر پچاس)
ایک دفعہ امہات المومنین حضرتِ ام سلمہ اور حضرت میمونہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سید عالم نور مجسم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلّم کی خدمت اقدس میں حاضر تھیں کہ حضرتِ عبد الرحمن ابنِ ام مکتوب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نا بینا آگئے- حضورِ اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے پردے کا حکم فرمایا تو انہوں نے کہا وہ تو نابینا ہیں (یعنی وہ نہ ہمیں دیکھ سکیں گے اور نہ پہچان سکیں گے) آپ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم نابینا نہیں ہو (ترمذی شریف)
ترمذی نے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا،عورت ہے- یعنی چھپانے والی چیز ہے جب وہ نکلتی ہے تو اسے شیطان جھانک کر دیکھتا ہے یعنی اسے دیکھما شیطانی کام ہے-
مذکورہ بالا احادیث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ خواتین کا پردہ برائے نام باریک دوپٹہ اوڑھنا بھی ناجائز و حرام ہے چہ جائیکہ کھلے سر اور کھلے سینہ بازاروں میں کھومتی پھریں-
مذکورہ دوسری حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ عورتوں کا غیر مردوں کے سامنے آنا قطعی ناجائز ہے اگرچہ وہ اندھے اور نابینا ہوں- مذکورہ بالا تیسری حدیث پاک سے عورت کی حقیقت واضح ہو جارہی ہے کہ عورت بذاتِ خود عورت ہے- یعنی عورت اسے کہتے ہیں جو چھپی چھپائی ہو عورت کا ہر ہر عضو ستر اور پردے کا مقتضی ہے- اب مذکورہ بالا احادیث کریمہ سے پردے کی اہمیت روز روشن کی طرح عیاں و بیاں ہوگئی کہ پردہ خواتین کے لئے کس حد تک ضروری ہے جس کو ملحوظ خاطر رکھنا انہیں سفر و حضر یعنی ہر وقت ہر حال میں ہر اعتبار سے فرض ہے- پردہ شعائر اسلام میں سے ایک شعائر عظیم ہے- اور یہی پردہ مسلم و غیر مسلم خواتین کے درمیان ایک خط امتیاز ہے-