قیصر محمود عرا قی
کریگ اسٹریٹ ، کمر ہٹی ، کولکاتا
عورت کا وجود دلکشی کی علامت ہے ۔ کائنات میں اگر سب سے خوبصورت کوئی مخلوق ہے تو وہ عورت ہی ہے ۔ صندل رویوں اور لطیف احساس سے مرد کے دل کو اپنے سراپے کا اسیر کر نے والی عورت اپنے وجود میں ایک شاعری ہے ۔ عورت کا روپ کا ئنات کا سب سے شر یر ہتھیار ہے ، دبی دبی مسکراہٹ سے یہ بڑے بڑے سور مائوں کو چت کر دیتی ہے، اس کی نگاہیں خنجر ہیں ، گلاب کی پنکھڑی کی مانند ہو نٹ جب کچھ سر گوشی کر تے ہیں تو گویا پہلو سے نکل کر دل ہاتھ میں آجا تا ہے ، اگر چہ یہ وجود مرد کے مقابلے میں نا زک ہے تاہم اس کے نخرے اور ادائیں اس نزاکت کو ایک البیلا سا احساس دیتے ہیں ، اپنی زلفوں کو لہرا کر یہ روپ متی جب بل دیتی ہے تو دل جیسے کوئی مٹھی میں لے کر مسل دیتا ہے ۔ عورت کی گرفت اتنی زیادہ مضبوط ہے کہ اس کے جا ل میں آنے والا شخص بے بس ہو کر بھی خود کو امریکہ کا مجسمہ آزادی سمجھتا ہے ۔ یہ ندی کی طرح شور کر تی ہے اور جب کوئی اس کے سحر میں گرفتار ہو کر اس کے پانی سے کھیلنے کی کوشش کر تا ہے تو یہ سمندر کی لہروں کی طرح بہا کر جا تی ہے ، عورت صبح کی تازہ ہوا کی طرح فرحت بخش ہے ، شام کو یہ باد صبا کا روپ دھار لیتی ہے ، رات کو یہ چاندنی بن کر صحن میں اُتر آتی ہے ، ہو ش مندوں کے ہو ش اُڑا نے والی اور درد مندوں کا درد بڑھا نے والی ، نیند میں خواب بن جا تی ہے ۔ عورت کے کومل روپ کو فتح کر نا مرد کا خواب رہا ہے ، اس خوبصورت بلا کو اپنی دستر میں کر نا مرد کی فطری خواہش ہے اور جب کوئی ازا بیلا اپنا زور دکھا تی ہے ، کوئی مارلن منرو ضد کر تی ہے تو مرد کا شوق دو آتشہ ہو جا تا ہے ، وہ فرہاد بن جا تا ہے اور اپنی شیریں کے حصول کے لئے دودھ کی نہر کھو د نے نکل پڑ تا ہے۔ زما نے بد لے ، صدیاں بیت گئیں ، روایتوں کا پانی وقت کے پُلوں سے بہہ بہہ کر ماضی کے سمندر میں گم ہو تا رہا مگر نہیں بد لا تو عورت کو چاہے جا نے کا انداز ۔ عورت پر اپنی وفا ثابت کر نے کے لئے مرد ہر منزل سے گزرنے کے لئے آج بھی تیار رہتا ہے ، پتھروں کے زمانے کے قابیل نے تو ایک روایت کی ابتدا کی تھی ، اس نے عورت کے حصول کے لئے دنیا کا پہلا قتل کیا اور آج تک لوگ قتل کر رہے ہیں اور قتل ہو رہے ہیں ۔ یہ حسن کی دیوی تو بہ شکن ہے ، اس کی چال دلوں میں بجلی کی لہر دوڑ ا دیتی ہے ، ایک تو وہ قتل عام ہے جو خون کی صورت میں زمین پر بہہ گیا ، کسی کی گردن گئی تو کسی کا کلیجہ نکل گیا ، لیکن ایک قتل عام یہ ہے جو عورت کے نگاہوں کے تیور بدلنے سے ہو تا ہے ، لاشوں کے ڈھیر لگ جا تے ہیں ، مرد کا وجود سُن ہو جا تا ہے ، مرد زور آور ضرور ہے مگر اس قا تلہ کے آگے بے بس ہو جا تا ہے ، سکندر اوردارا جیسوں کو بھی اس اُجلے روپ نے اپنا شکار کیا ، اس کے من کو کوئی بھی بھا سکتا ہے ، کوئی پیمانہ نہیں ہے اس کے دل میں بات بیٹھ جا ئے تو شاہ بھی فقیر ہے اور پھر یہ فقیر کو اپنا شاہ بنا لیتی ہے اس کا تصور بالکل جدا ہے اور اس تصور کو کوئی بھی الفاظ کے دائرے میں نہیں لا سکتا۔یہ کبھی کبھی کسی کے حق میں بھی فیصلہ دے سکتی ہے ، میرے حق میں بھی اس کا فرمان جا ری ہو سکتا ہے اور آپ کو بھی نواز سکتی ہے ، ویسے سنا ہے کل ویلنٹائن ڈے ہے ۔ موقع اچھا ہے ، دستور ہے ، روایت ہے ، ایک پھول پکڑا دینے سے دل کی بات زبان پر آجا ئے گی ۔ محبت ایک عالمگیر جذبہ ہے ، اس کے اظہار میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ ویلنٹائن ڈے تو پوری دنیا میں منا یا جا تا ہے ، دنیا بھر میں لوگ اپنے چاہنے والوں کو تحائف دیتے ہیں ،آج ایسا دن ہے کہ کوئی تحفہ دینے سے جھجھکتا بھی نہیں ہے ، تحفہ لینے والا بھی نہ نہیں کر سکتا ۔ مغربی دنیا میں تو ویلنٹائن ڈے کو صرف محبوب کی الفت اور محبوبہ کی توجہ حاصل کر نے تک محدود رکھا جا تا ہے ، مگر بر صغیر میں اس کے معنی اس لحاظ سے قدرے وسیع ترہیں کہ ویلنٹائن ڈے پر لڑکیاں اپنی سہیلی کے لئے ویلنٹائن ڈے کارڈ تیار کر رہی ہو تی ہے تو کئی فائدے ہو تے ہیں ، ایک تو یہ کہ ماں منع نہیں کرسکتی ، دوسرا یہ کہ یہ کارڈ سہیلی سے با آسانی سہیلا تک پہنچ جا ئے تو انتظام و انصرام میں کوئی دقت پیش نہیں آتی سب بآسانی ہو جا تا ہے۔ ایک تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اگر یہ کارڈ واقعتاََ کسی سہیلی تک پہنچ رہا ہے تو لڑکی کو اس بات کی ہمت آجا تی ہے کہ آج سہیلی تک پہنچا دیا کل محبوب تک بھی رسائی ہو جا ئے گی ۔ الغرض ویلنٹائن ڈے نے دلوں کے ملا نے کے لئے خاطر خواہ اقدامات کر رکھے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے کی مخالفت کر نے والے شاید دقیانوسی ہیں ، اس دن کی بھلے سے کوئی بھی تاریخ ہو ،ہسٹری میں کیا رکھا ہے ، بات تو حال کی ہے ، زمانہ بدل گیا ہے ، ہندوستانی معاشرے کو ایک صحت مند رجحان کی ضرورت ہے ، محبت کے اظہار کے عالمی دن پر محبت کے فروغ کی ضرورت ہے ، ویلنٹائن ڈے بالکل جا ئز ہے ، یہ حلال ہے ، لیکن ویلنٹائن ڈے منا نے والوں سے بس میرا ایک سوال ہے ۔ آپ نے دوسرے کی بیٹی کے ہاتھ میں تو پھول پکڑا دیا ہے خود آپ کی بیٹیا رانی کو کسی نے گھاس نہیں ڈالی یا آپ کے علم میں نہیں ہے کہ آپ کی بہن کو کیا تحفہ ملا ہے ؟ میراخیال ہے کہ اس روایت کو بیلنس ہو نا چاہئے ۔ اگر ہم کسی کی بہو، بہن اور بیٹی کو تحفہ دے سکتے ہیں تو ہماری بہن ، بہو اور بیٹیوں میں کیا عیب ہے ۔ یہ کیسی روایت ہے کہ صرف دوسروں کی بہن بیٹیوں کے لئے
جا ئز ہے اور اپنی باری میں سب مولوی استغراللہ بن جا تے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری سو سائیٹی کے لوگ بھی اندر سے مولوی ہیں ، ویلنٹائن ڈے پر یا تو آدھا تیتر اور آدھا بیٹربننے کی روایت ختم ہو نی چاہئے یا پھر اس روایت کو ہی سائڈ پر رکھ دینا چاہئے ۔ ایسی روایت کا کیا فائدہ جس کے لئے منافق بننا پڑے ۔ عورت کا وجود دلکشی کی علامت ہے مگر اس وقت تک جب تک یہ رسائی سے دور ہے ، جب تک عورت خاص ہے ۔ اس میں کشش ہے ، جب تک عورت میں شرم اور جھجھک ہے ۔مشرق کی بہت ساری روایتوں میں ایک سب سے خوبصورت بات یہاں کی عورتوں کی روایتی شرم و حیا بھی ہے ، قوم کے لئے اس کی روایت بہت خاص ہو تی ہے ۔ میں آپ سے یہ نہیں کہہ رہاکہ آپ ویلنٹائن ڈے کے پھول کو کا ر نس پر رکھ کر موت کا منتر پڑھنا شروع ہو جا ئیں ۔ میری تو بس اتنی عرض ہے کہ اس روایت کوصرف دوسروں کی بہن بیٹیوں پر ہی لا گونہ کریں ۔ یہ منافقت ہے ، کھلی منافقت ہے ۔