قیصر محمود عرا قی
6291697668
جیسا کہ آپ میں پچاس فیصد لوگ تو ضرور جا نتے ہو نگے کہ کل عالمی یوم محبت تھا ، جسے عرف عام میں ویلنٹائن ڈے کہا جا تا ہے ۔ اس کی تاریخ کو جانتے ہو ئے ہمارے ہاں اس حوالے سے ہمیشہ بحث رہی ہے کہ ہمیں یہ دن منانا چاہئے کہ نہیں ۔ نوجوان نسل کے لئے اس دن میں کشش ہے اور وہ منا تے ہیں دھڑ لے سے، جبکہ ہماری نسل کے لوگ اس کی مخالفت میں سر گرم رہتے ہیں ۔ الیکڑانک اور سوشل میڈیاکی کرم نوازی سے ہمارے ملک میں ایسی چیز یں در کر آئی ہیں کہ جن کا نہ ہمارے مذہب سے واسطہ ہے ، نہ تہذیب و تمدن سے۔کئی سوسال تک ہندوسان میں مسلمان اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ رہتے ہو ئے بھی جس تمدن کی حفاظت کی تھی آج ہم اس تہذیب و تمدن کو پا مال کر رہے ہیں ۔ جس طرح بسنت ، ہولی، دیوالی ، کرسمس جیسے تہوار منا ئے جا تے ہیں اسی طرح ملک میں رہنے والے مسلمان بھی اپنے مذہبی تہوار آزادی سے منا تے ہیں ، لیکن ان تہواروں کے منا نے سے بھی دو ہاتھ آگے آج ہماری قوم نکل گئی ہے جو ویلنٹائن ڈے کو اس طرح منا تے ہیں جس طرح وہ لوگ بھی نہیں منا تے جن کے یہ اصل میں تہوار ہیں ۔ ہم تو اس مذہب کے پیروکار ہیں جس کی بنیاد ہی محبت پر ہے ، اس کی اصل ، اس کا منبع ، اس کی روح اور اس کا فلسفہ ہی محبت ہے ۔ اپنے رب سے محبت کہ جس نے ساری کائنات کو تخلیق کیا ، کائنات کی ہر چیز اس کی حمد و ثنا اور اسی کی تسبیح کر تی ہے ، اس کی اطاعت ،اس کی بندگی ، اسی کی عبادت اور اسے لاشریک ماننا، یہ اس سے محبت کا تقاضا ہے ۔اللہ کے رسول ﷺ سے محبت ، اللہ ہی سے محبت کا دوسرا پہلو ہے ، آپ ﷺ کی سنت کی تقلید ، اس نیت کے ساتھ کہ اس سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہو، ان کی حیات طیبہ کے ہر پہلو سے اپنی حیات کے گوشوں کو منور کر نا، نبی پاک ﷺ سے محبت کا تقاضا ہے ۔ اللہ کی بنائی ہو ئی مخلوق سے محبت ، اللہ سے محبت کا ایک اور پہلو ہے ، نا صرف انسانوں بلکہ جانوروں کے ساتھ بھی نر می اور شفقت کا درس دیا گیا ، اس کی ادنیٰ سے ادنیٰ مخلوق کو بھی حقیر نہ جا ننا، کسی کو اپنے ہاتھ اور زبان سے ایذانہ پہنچانا ، کسی کے حقوق غصب نہ کر نا ، ایک انسان کے قتل کو انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ، ایک چیونٹی کو بھی نا حق ما رنے کی اجازت نہیں ۔ اللہ تعالیٰ خود اپنی مخلوقات سے اسقدر محبت کر تا ہے کہ پتھر کے اندر کیڑے کو بھی رزق پہنچا تا ہے ، زمین کی تہوں میں رہنے والی مخلوقات کو بھی ۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ اپنے والدین اور قرابت داروں سے محبت کا درس دیا گیا ہے ، اس درس کے بعد ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم محبت کے اظہار کے لئے ہر سال چودہ فروری کا انتظار کریں ، لال گلاب یا گلابوں کی کلیاں خرید یں ، شام کو پارٹیاں منعقد کریں اور صرف ایک دن اپنے پیاروں کو بتائیں کہ ہمیں ان سے محبت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کا خمیر ہی محبت کی مٹی سے اٹھا یا ہے ، انسان آپس میں مربوط ہیں تو یہ تقاضئہ محبت ہے ، دو انسانوں کے ما بین محبت کے تعلق کے باعث ہی انسان کی تخلیق کا عمل شروع ہو تا ہے ۔ ماں اپنے بچے کے بوجھ کو اپنے پیٹ میں اٹھاتی ہے تو محبت سے ، اسے اپنے دودھ سے سینینچی ہے تو وہ بھی اس کی محبت سے ، باپ اپنی اولاد کی خاطر مشقت کر تا ہے تو وہ اس کی طرف سے اپنی اولاد سے محبت کا اظہار ہے۔ عموماََ دنیا میں آنے والا انسان رشتوں کے ایسے مضبوط دھا گو ں سے بندھا ہوا ہو تا ہے اس کی پیدائش ان رشتوں اور نا طوں کو اور بھی مضبوط کر دیتی ہے ۔ الغرض محبت کے کئی روپ، کئی شکلیں اور کئی طریقے ہیں ۔ محبت عشق بھی ہے اور پیار بھی ، شفقت بھی ہے اور انسیت بھی ، ہمدردی بھی ہے ، رحم بھی اور ترس بھی ، لگائوبھی ہے اور التفات بھی ، محبت ان لوگوں سے بھی ہو تی ہے جن سے ہمارا خون کا رشتہ ہے اور ان سے بھی جن سے دوستی ہواور وہ بھی جو ہم سے کسی اور نا طے یا تعلق سے جُڑ جا تے ہیں ، لیکن ان ساری محبتوں میں سب سے اہم ہے ، خود سے محبت کر نا ۔ آ ج محبت کے اس دن پر آپ سے خود وعدہ کریں کہ آپ اس کے بعد خود سے محبت کرینگے ، بے لوث اور بے غرض محبت ، یہی محبت با قی ساری محبتوں کی بنیاد ہے ، اپنے خالق سے سچی محبت کر نے والا اپنے خالق سے محبت کر ے گا ، اس کی باقی مخلوق سے ، ان کی پیدا کی ہوئی نعمتوں سے ،انسانوں سے ، جانوروں سے ، ایک ملک سے اپنے ملک کے محافضوں سے، ہر وہ شخص جو اسے کسی نہ کس طرح سہولت مہیا کر تا ہے ، خواہ وہ اسے لفٹ دینے والا ہو ، اس کا جو تا مر مت کر نے والا ہو ، آگے بڑھ کر اس کے لئے دفتر کا دروازہ کھو لنے والا ہو، مسجد میں صفیں بچھا نے والا ہو ، محلّوں کا چوکیدار جو راتوں کو جاگتا ہے توہم سوتے ہیں ، وہ مستری مزدور جو ہمارے لئے گھر بنا تے ہیں ، کیونکہ ہم خود گھر نہیں بنا سکتے ۔غرض ہمارے ارد گرد درجنوں ایسے لوگ ہیں جو ہمارے لئے سہولت کا رہیں چاہے وہ یہ سہولیات ہمیں کسی تنخواہ یا ٹپِ کے عوض دیتے ہوں مگر ہم اپنی زندگی میں ان کے محتاج ہیں ، ہم ان سے کام لیتے ہیں مگر ان سے محبت نہیں کر تے ، اس لئے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ انھیں ان جذبات کے معاوضے مل جا تے ہیں ۔ یقینا ہم انھیں یہ تو نہیں کہ سکتے کہ ہم ان سے محبت کر تے ہیں مگر اتنا تو کر سکتے ہیں کہ ان کی خدمات کا دل سے اعتراف کریں اور ہر ایک کا شکریہ ادا کر نے کی عادت ڈالیں ۔ کیونکہ محبت دنیا کا سب سے پاکیزہ اور لا زوال رشتہ ہے ، لیکن محبت کے لئے محب کا تعین کر نا بہت ضروری ہے کہ ہم کس سے محبت کر رہے ہیں ، راہ چلتے کسی پر دل آجا ئے یا کسی انسان کی ظاہری خوبصورتی آپ کو اس کی جا نب متوجہ کر دے ، یہ محبت نہیں ہے ۔ آج میڈیا ہماری نئی نوجوان نسل ویلنٹائن ڈے کے لئے جس قدر پُر جو ش اور جس محبت کا پر چار کر تی ہو ئی نظر آتی ہے وہ ان کو غلط راستہ پر ، بے حیائی کی جانب لے جا تی ہے ، ہماری ذہنی غلامی ہے جوہمیں اغیارکی رسومات کو اپنا نے پر اکساتی ہے۔ ۱۴ فروری جس کو دنیا بھر میں محبت کے عالمی دن کے طور پر منا یا جا تا ہے اور ویلنٹائن ڈے کے نام سے جا نا جا تا ہے اس کا تاریخی پس منظر کیا ہے اس بار ے میں جتنی بھی تحقیق کی جا ئے کوئی حتمی جواب نہیں ملتا۔ لہذا میں کسی ایسی محبت کو نہیں مانتا جو اظہار کے لئے دنوں اور رشتوں کی محتاج ہو ، محبت تو وہ پاک ، آفاقی جذبہ ہے جس کے بے پناہ رنگ اور روپ ہیں جوا گر خالق کائنات سے ہو تو عبادت ، محمد ﷺ سے ہو تو ہدایت کا سر چشمہ ، ماں باپ سے ہو تو فرمانبرداری اور اگر انسانوں سے ہو تو انسانیت بن جا تی ہے ۔ اس لئے زندگی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اس کو پاکیزہ طریقے سے پاکیزہ رشتوں کے ساتھ گزار یں ، اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور بدعتوں اور خرافات سے ہمیں بچائے ۔