رواں ما ہ کی گیا رہ تاریخ کو محکمۂ صحت کشمیر کی جا نب سے ایک حکمنامہ جا ری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ محکمہ ان مال زمین کو تنخواہیں نہیں دے گا جن کی ماہانہ کا ر کر دگی غیر تسلی بخش ہو گی ۔حکمنامہ میں محکمہ کے سبھی ضلعی ذمہ داروں سے کہا گیا ہے کہ وہ محکمہ کے ہر ایک ملازم کی جانب سے مہینے کے دوران کئے گئے کام کی تفصیلات ہر ما ہ ڈائر یکٹوریٹ کو روانہ کریں تاکہ ان ملا زمین کو تنخواہیں دینے یا نہ دینے کے حوالے سے کو ئی فیصلہ لیا جا سکے ۔محکمہ ٔ صحت کی جانب سے جا ری کر دہ یہ حکمنامہ اس اعتبار سے انتہا ئی صحیح اقدام ہے کہ اس سے محکمہ کے کام کا ج کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں میں مر یضوں کو دستیاب رکھی جانی والی طبی سہولیات میں معقولیت آئے گی۔اسی بیچ یہ با ت بھی غور طلب ہے کہ جموں وکشمیر حکو مت کے ما تحت کام کر نے والے اکثر و بیشتر محکمہ جا ت میں ایسے مال زمین کی بھا ری تعداد موجود ہے جن کا کام غیر تسلی بخش ہے یا جو محض تنخواہوں کے حصول کے روز ہی اپنے دفاتر میں حاضر ہو جا تے ہیں ۔حکومت نے کچھ عر صہ قبل جنگلا ت کی اراضی کو غیر قانونی قبضہ جا ت سے آزاد کرا نے کے لئے ایک مہم شروع کر دی اور اس مہم کے نتیجہ میں اب تک ہزاروں کنال اراضی کو غیر قانونی قبضے سے آزاد کرالیا گیا ہے ۔ایسے میں سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ جب اس اراضی پر قبضہ ہو رہا تھا تو متعلقہ مال زمین کہاں سوئے ہو ئے تھے اور انہوں نے اپنے اعلیٰ حکا م کواس چیز کی اطلا ع نہیں کی یا اگر کہیں اعلیٰ حکام کو مطلع بھی کیا گیا تھا تو انہوں نے کا روائی کیوںنہیں کی ۔کیا ان مال زمین کے خلاف کا روائی ضروری نہیں بنتی جنہوں نے جنگلا ت کی زمین کو غیر قانونی قبضے میں جا تے ہو ئے اپنی آنکھیں بند کر کے رکھیں ؟۔ایم جی نر یگا سابق یو پی اے کی مر کزی کی جانب سے دیہی علاقوں کو تر قی اور روز گا ر کی فراہمی کے حوالے سے ایک انقلابی سکیم تھی جس کی عالمی سطح پر بھی پزیرائی ہو ئی ہے تاہم یہ با ت روز روشن کی طرح عیا ں ہے کہ جموں وکشمیر خاص کر وادی کے کو نے کو نے میں یہ سکیم متعلقہ محکمہ کے ملازمین اور افسران و انجینئروں کے لئے سونے کی کا ن ثابت ہو ئی ہے اور چپراسی سے لے کر بلاک ڈیولپمنٹ افسران تک کمیشن کا ایک ریٹ فکس ہے جس کے تحت ایم جی نر یگا کاکام کر نے والے ٹھیکیداروں سے کمیشن وصول کیا جا تا ہے ۔تعلیمی شعبے میں سرکا ری سکولوں کی کا ر کر دگی بے احتسابی کی ایک زندہ و جا وید مثال ہے ۔سر کا ری سکولوں میں کا م کر نے والے اساتذہ نے اپنے بچوں کو نجی سکولوں میں حصول تعلیم کے لئے داخل کرا لیا ہے جس کے نتیجہ میں سر کا ری سکولوں کے اندر تعلیم کا معیار ہر گزرتے دن کے ساتھ گر تا ہی جا رہا ہے ۔کیا متعلقہ محکمہ جا ت کے حکام کے لئے ضروری نہیں کہ وہ اپنے ما تحت ملا زمین کو احتساب کے دائر ے میں لا نے کی غرض سے اسی طرح کے احکامات جا ری کر تے ہو ئے ان کی کا ر کر دگی کو بہتر کرنے کی سعی و کو شش کریں ۔جموں وکشمیر حکو مت کے ما تحت کا م کر نے والے متعدد بلکہ کم و بیش سبھی محکمہ جا ت میں کا م کر نے والے ملا زمین کے حوالے سے اس طرح کے احکا ما ت صادر کئے جا نے کی ضرورت ہے تاکہ ہر محکمہ کے کا م کاج اور کا ر کر دگی کو بہتر کیا جا سکے اور ہاں اس دوران یہ با ت بھی ضروری ہے کہ جو سرکا ری مال زمین لگن اور تندہی سے اپنا کا م کا ج کر تے ہوں ان کی حوصلہ افزائی کر نے کی بھی ضرورت ہے تب جا کر سرکاری دفاتر میں ورک کلچر کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور عام لوگوں کو انتظامی سطح پر درپیش مشکلات کو کم کیا جاسکتا ہے ۔