حافظ میر ابراھیم سلفی
6005465614
پردہ اُٹھ جانے سے اخلاقی ترقی قوم کی
جو سمجھتے ہیں یقینا عقل سے فارغ ہیں وہ
سن چکا ہوں میں کہ کچھ بوڑھے بھی ہیں اس میں شریک
یہ اگر سچ ہیں تو بے شک پیرِ نابالغ ہیں وہ
خون میں باقی رہی غیرت تو سمجھے گا کبھی
خوب تھا پردہ نہایت، مصلحت کی بات تھی
شریعت اسلامیہ انسان کی مکمل زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ نظام الہی ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ ظاہر و باطن کی اصلاح تب ہی ممکن ہے جب اسلام کا نام لیوا شریعت کے قانون کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والا ہو۔ عقائد، عبادات، اخلاقیات، معاملات، سیاست، قانون، سیاست، معیشت، معاشرت غرض اسلام نے کہیں پر بھی اپنے متبعین کو لاوارث نہیں چھوڑا۔بندہ مومن کی صفت خاصہ ہے کہ وحی الہی کی تعلیمات اپنی جان سے عزیز رکھے۔یہاں مقصود جو نقطہ ہے وہ ہے حجاب و پردہ۔ بحیثیت ایک مسلم، ہمیں اپنے لباس کے بارے میں کافی محتاط رہنا ہے۔ لباس کے متعلق رب العزت نے قرآنی آیات میں، نبی کریم ؐنے احادیث صحیحہ کے اندر، محدثین و فقہاء نے اپنی کتب میں اصول و قواعد بیان فرمائے۔لباس کے اصول و ضوابط مردوزن دونوں کے لئے بیان ہوئے ہیں۔اسلام نے عورت کے لئے جو لباس کے احکامات وضع کئے ہیں، وہ صنف نازک کے لئے رحمت و نعمت عظمیٰ ہے۔شرعی پردے نے عورت کو عریانیت اور فحاشی کے مراکز سے نکال کر عزت کی زندگی عطا کی۔آج بھی جہاں پر جنسی جرائم کی شرح زیادہ ہے وہاں بے پردگی بھی اپنے عروج پر ہوگی۔شرعی پردے نے عورت کو بری نگاہوں سے محفوظ رکھا، ہوس پرستوں کی ہوس سے محفوظ رکھا۔ملک ہند میں گزشتہ کچھ سالوں سے بالعموم اور سابقہ کچھ مہینوں سے مسلسل شر پسند عناصر کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف کھڑا کر رہے ہیں۔مسلم ملت نے جس گلشن کو سجانے کے لئے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں، آج اسی دیس میں انہیں غریب الوطنی کی زندگی بسر کرنی پڑ رہی ہے۔وسیم رضوی ملعون جیسے افراد کھڑا کرکے اسلام کو داغدار کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن اسلام نے نور ہے۔ اسے کون بجھا سکتا ہے۔سامراجی طاقتیں، اللہ کی پکڑ کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔اس بار جس مسئلہ کو بنیاد بنا کر نفرتیں پھیلائی جارہی ہیں، وہ ہے مسلم طالبات کا شرعی لباس پہننا۔اس مسئلہ کو اچھال کر ملت اسلامیہ کے سینے میں ایک خنجر سے وار کیا گیا۔اس سلسلے میں کچھ دنوں پہلے میری مسلم بہن "مسکان خان” کو طاغوت کے علمبرداروں نے گھیر لیا لیکن اللہ رب العزت نے مسکان خان کے دل میں ایسی ثابت قدمی عطا کی کی بلند آواز سے تکبیر کی صدا بلند کرکے شرپسندوں کے حلقے میں زلزلے پیدا کردیا۔ملک ہند جیسے جمہوری ملک میں ایسی شدت پسندی، ایسی دہشتگردی غور طلب مسئلہ ہے۔۔اقلیت پر اس طرح ظلم و جبر کی داستانیں رقم کرنا، درندوں کی صفت ہے بلکہ اس سے بھی بدتر۔ مسکان کے جذبے کو ہم سلام پیش کرتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ مسلم بہنوں سمیت مسکان کی حفاظت فرمائے۔۔۔۔ آمین
حالات و واقعات اس بات کا تقاضا کررہے ہیں کہ جو مسلم بہنیں ابھی شرعی لباس نہیں پہنتی وہ بھی شرعی لباس سے خود کو متصف کروائے۔حجاب و پردے کے بارے میں راقم یہاں بنیادی دس نقاط بیان کرنے جارہا ہے جن کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
فرمان ربانی ہے کہ ترجمہ "اے نبی!اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیو ں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے او پر ڈالے رکھیں ، یہ اس سے زیادہ نزدیک ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انہیں ستایا نہ جائے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
(۱)لباس دل کا نہیں ہوتا
بعض مسلم بہنیں یہ اعتراض کرتی ہیں کہ” ہم دل سے مسلمان ہیں، حجاب سے نہیں۔ دل صاف ہونا چاہئے ".یہ اعتراض جہالت پر مبنی ہے۔کوئی اور دلیل دئیے بغیر یہ ہمارا ایمان ہے کہ ” کائنات کے سب سے طیب و اعلیٰ بشر رسول کریمؐ تھے، اور عورتوں میں امھات المومنین، لیکن پردے کے احکام سب سے پہلے نبی کریم ؐ نے گھر میں ہی نافذ کروائے گئے ".زندگی کے دیگر معاملات ہم بڑی محنت اور اجتھادات سے انجام دیتے ہیں، لیکن جب بات دین کی آتی ہے، یہاں ہمیں دل یاد آتا ہے۔حالانکہ جس انسان کا ظاہر صحیح نہ ہو، اس کا باطن بھی ٹھیک نہیں ہوتا۔ جب دل کے اندر فساد ہو، جسم کے باقی اعضاء بھی اللہ کے مطیع نہیں ہوتے۔ یہ نقطہ احادیث سے واضح ہے۔جذباتی باتیں کرنے سے گناہ حلقہ نہیں ہوتا، گناہ گناہ ہی رہتا ہے لہذا ایسے فضول اعتراض کی شریعت میں کوئی جگہ نہیں۔
(2)عورت کا پورا جسم قابل پردہ ہے
سلف صالحین کے فہم سے جو انہوں نے کتاب و سنت سے اخذ کیا ہے وہ یہی ہے کہ، عورت کا پورا جسم پر پردہ کرنا واجب ہے۔ زینت کو پوشیدہ رکھنا لازمی ہے۔چہرہ، ہاتھ سمیت پورے جسم کو چادر، برقے سے ڈھانکنا واجب ہے۔غیر مردوں کو مائل کرنے کی خاطر باریک اور چست لباس پہننے والیاں جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہیں گی۔خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلنی والی عورتوں کو بارے میں نبوی زبان سے "زانیہ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔عصر حاضر میں feminist تحریکوں نے ملت کی بیٹیوں کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ تعلیمی دانشگاہوں میں بھی liberal خیالات پیش کئے جارہے ہیں اور اس طرح ہمارے تعلیمی ادارے الحاد و دہریت کے مراکز بن گئے ہیں۔
(۳) پردہ کرنا ظلم نہیں
بعض ملحدانہ تحریکوں سے متاثر ہوکر ہماری بیٹیاں اس نعرے کی زد میں آچکی ہیں کہ "پردہ ظلم ہے”.عرب کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے، کلیجا کانپ اٹھتا ہے۔ بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا، جسم فروشی کا کاروبار، رسم بن چکا تھا۔ روم کی تاریخ دیکھئے کہ جہاں لوگ یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں تھے کہ عورت میں روح بھی ہے۔وہ تو عورت کو حیوانات میں شمار کرتے تھے۔ قربان جاؤں نبی کریم ؐ کی مبارک تعلیمات پر کہ جنہوں نے عورت کو عزت دی، زندگی دی، پہچان دی، حقوق دئیے، بلندی دی۔جس اسلام نے عورت کو پہچان دی، وہ اسلام کس طرح عورت پر ظلم کرسکتا ہے۔ درحقیقت بات یہ ہے کہ فحش کاری کے علمبردار عورت کو پھر سے اسی اندھیرے میں پھینکنا چاہتے ہیں جہاں سے وہ نکل کر آئی تھی۔وہ فحاشی، عریانی، غیر فطری جنسی تسکین کے ذرائع مسلم معاشرے میں پھیلانا چاہتے ہیں اور آلے کے طور پر ہمارے بچے استعمال ہو رہے ہیں۔
(۴)پردہ تعلیم میں رکاوٹ نہیں
یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ اس جدید دور میں پردہ ایک رکاوٹ ہے تعلیم کے لئے۔ (نعوذ باللہ) یہ نعرہ زنادقہ کا ہے۔اپنی ماضی کو یاد کرکے آنسو آتے ہیں کہ ہماری روشن تاریخ کس طرح زوال پزیر ہوگئی۔اگر بات تعلیم کی ہے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی تعلیم یافتہ عورت کس نے دیکھی۔ جس کا کردار ایسا تھا کہ عرش اعلیٰ سے رب نے انکی طرف سے پاکی بیان کی۔دو ڈگریاں لے کر پردہ پر اعتراض کرنے والوں کی اوقات ہی کیا ہے۔ ایسے افراد تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی جوتیوں کے برابر بھی نہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے خود اسلام نہیں پڑھا، نہ ہم نے اسلام سیکھا۔اللہ رب العزت نے ایسے افراد کے لئے دردناک عذاب تیار رکھا ہے جو مسلم معاشرے میں فحاشی پھیلانے کے لئے کوشاں ہیں۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھریلو مدرسے سے بڑے بڑے محدثین، فقہاء پیدا ہوئے۔صحابیات سے بڑھ کر کس کا دل پاک ہوسکتا ہے، وہ کائنات کی سب سے مقدس ہستیاں تھی۔
(۵) پردہ کرنا کٹر پرستی نہیں
اسلام نہ تو conservative ہے اور نہ ہی moderate اور نہ ہی liberal. اسلام کے ہر حکم کے پیچھے حکمت بالغہ ہوتی ہے۔ حجاب و پردہ ملت کی بیٹیوں کے لئے رحمت ہے۔ نبی کریم ؐ نے اس دنیا سے رخصتی کے وقت بھی عورتوں کے بارے میں مردوں کو تلقین کی۔ حجتہ الوداع کے موقع پر عورتوں کے لئے مخصوص نصائح اور وصال صحابہ کو بیان کی۔ملت کی بیٹیوں کو نبی کریم ؐ نے جگر کے ٹکڑے سے مشابہت دی ہے۔ عورت جس روپ میں بھی وہ، اسلام نے ہر روپ میں عورت کو ایک الگ منزلت عطا کی ہے۔جنسی زیادتیاں، جنسی استحصال کے پیچھے بے پردگی ایک بڑی وجہ ہے۔ام سلیم رضی اللہ عنہا بھی عورت تھی جس کے قدموں کی آہٹ نبی کریم ؐنے جنت میں سنی، سیدہ سمیہ رضی اللہ عنہا بھی خاتون ہی تھی کہ جس نے اسلام کے لئے اپنے آپ کو قربان کردیا۔نبی کریم ؐ کی بیٹی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے بارے میں قلم بھی کانپ اٹھتے ہیں کہ جن کے بچے کو نیزے سے گرایا گیا اور انکو شہید کیا گیا۔اللہ کرے کہ یہ فکر اس معاشرے کو حاصل ہو۔۔۔ آمین۔
(۶)غزہ فکری سے خود کو بچائیں
عالمی سطح پر نظر ڈالی جائے تو وہی لوگ عورتوں کے حقوق کے بارے میں بول رہے ہوتے ہیں جنہوں نے خود عورت کو لطف اندوزی کا ایک ذریعہ بنایا۔ اترپردیش کی اس دلت لڑکی کو کون بھول سکتا ہے جس کے ساتھ ظالموں نے وحشیانہ ظلم کیا۔ نربھیا (Nirbhaya) کو کون بھول سکتا ہے جس کی عزت کو قوم کے درندوں نے دن دھاڑے نیلام کردیا۔ یہ لوگ ہمیں کیا درس دیں گے جن کے گھر خود جل چکے ہیں۔دنیا کو vision دینے والے خود کفر و ظلم کی تاریکیوں میں ڈوب چکے ہیں۔
(۷) اللہ سے دشمنی۔۔۔ آسان نہیں
قوم لوط کے بارے میں قرآنی آیات دیکھئے کس طرح رب العزت نے ان کے نام و نشان کو زیر زمین دفن کر دیا۔ نبی کریم ؐنے قرب قیامت کی ایک نشانی یہ بھی فرمائی ہے کہ آسمان سے پتھروں کی بارش ہوگی، صورتوں میں بگاڑ پیدا ہوگا، زمین لوگوں کو اپنے اندر نگل لے گی۔ایسی ایسی بیماریاں پیدا ہونگی جن نے نام سے بھی ہمارے اسلاف بے خبر تھے، یہ تب ہوگا جب عورتیں اللہ کی باغی بن جائیں گی۔مرد بھی آزاد نہیں لیکن چونکہ یہاں بات پردے کی ہو رہی ہے اس لئے ملت کی بیٹیوں سے مخاطب ہوں۔مسلم معاشرے کے اندر homosexuality کی لعنت پھیل رہی ہے۔سلام پیش کرتا ہوں ایسی بہنوں کو جو اس پرفتن دور میں بھی اپنے کردار کو بچائے ہوئے ہے۔
(۸) حجاب و پردہ حیا کی عکاسی ہے
چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے نفس میں فطری حیا(modesty) اور ایمانی حیا رکھا ہے۔بلکہ بعض حیوانات بھی اپنا ستر پوشیدہ رکھنے کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں۔حیا مسلم عورت کی زینت ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ ہمیں عورت کے روپ میں معلمہ بھی چاہیے، ڈاکٹر بھی چاہیے وغیرہ۔ لیکن ایسی عورتیں جو شرم و حیا سے لیس ہو۔ جس انسان کے اندر حیا نہیں اس میں کوئی ایمان نہیں۔ حیا انسان کو زینت بخشتا ہے۔حیا خیر و بھلائی کی اصل ہے۔اللہ کے خوف سے،نظروں کے جھکاؤ سے، لباس میں محتاط رہنے سے،انسان یہ صفت خاصہ حاصل کرتا ہے۔
(۹) پردہ عزت دار عورتوں کی پہچان ہے
انسانیت کی تاریخ سے کے کر اب تک عزت دار خاندان کے لوگ اپنی عورتوں کی زینت کو بازاروں میں نیلام نہیں کراتے۔عورتوں کے تقدس کو اور بے حیائی کے عروج کو روکنے کے لئے شریعت نے اختلاط مردوزن کو حرام قرار دیا۔ہمارے نوجوان اسلام سے کیوں متنفر ہورہے ہیں، اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم خود دین پڑھتے نہیں۔ میں نوجوان ملت کو دعوت فکر دیتا ہوں کہ خود قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھیں، کتب احادیث کا مطالعہ کریں، سیرت نبوی ؐ کو پڑھیں، اپنے دین کا تعارف حاصل کریں۔اللہ کی معرفت، نبی کریم ؐ کی معرفت حاصل کریں۔ قانونی مسلمان نہیں بلکہ علمی و عملی مسلمان بنیں۔
(10) آخرت کی فکر کریں
جنت کمانا اتنا آسان نہیں۔ آخرت ہماری ابدی حیات ہے۔ دنیا کے سٹھ، ستر سال تو کچھ بھی نہیں، قیامت کا ایک دن پچاس ہزار سالوں کے برابر ہوگا۔اس کی فکر کریں۔ آئے دن کوئی نہ کوئی حادثہ ہوتا رہتا ہے، اپنی عاقبت کو سنوارنے کے لئے آج ہی اللہ اور اسکے رسولؐ ؐکی طرف رجوع کریں۔نوجوان طبقہ مختلف ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہے۔ سکون، اطمنان، امن و قرار صرف اللہ اور رسول ؐ کی اطاعت میں ہے۔دنیا کی واہ واہ حاصل کرنے کے لئے اللہ کو ناراض نہ کریں، یہ گھاٹے کا سودا ہے۔بس یہ بات یاد رکھیں، "جو جسم پردے میں دنیا کی گرمی برداشت نہیں کرسکتا، کیا وہ جسم جہنم کی آگ برداشت کرسکے گا ".وہ کامیابی کسی کام کی نہیں جو انسان کو حیا کے زیور سے محروم کردے۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمیں شرم و حیا کی دولت عطا کرے۔۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔