قیصر محمود عرا قی
6291697668
سنجیدہ معاشرے کی خاصیت ہے کہ وہ اپنے استحکام تو ازن او ر وحدت کی بنیادیں محفوظ رکھنے کے لئے، اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لا نے کے لئے ،ہر وقت چوکنا اور تیار رہتا ہے ۔ صلاحیت خواہ دینی ہو یا ثقافتی ، سیاسی ہو یا معاشی وہ اسے اندرونی یا بیرونی امن و امان کی حفاظت پر لگا نے سے کبھی نہیں کتراتا اور نہ اس کے معاملے میں کوئی کوتا ہی برتتاہے ۔ امن اور امان یہ دونوںہر ترقیاتی جدوجہد کے ستون ہیں اور ہر معاشرے کی منزل مقصود، بلکہ یہ بلا امتیاز ہر قوم کی آرزو اور تمنا ہے کہ جس ملک میں ہے وہاں امن و امان رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی معاشروں میں اس پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے ۔ تبھی تو اسلامی معاشرے ایمان لا کر امن کا گہوارہ بن گئے اور امن کے سائے میں پر ورش پا نے لگے ۔ پھر ان معاشروں سے امن اور ایمان کی شگو فے پھوٹنے لگے ، کیونکہ ایمان کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا ۔ جب امن میں کمزور ی اور بگاڑ پیدا ہو جا ئے تو شیطانی خباثت اور اس کے انسانی اور جنی لشکروںکے کھیل تما شے ظاہر ہو نا شروع ہو جا تے ہیں اور وہ اپنے گماشتوں کو ہر راہ پر کھڑا کر دیتا ہے جو بشر کو گمراہ کر نے میں لگ جا تے ہیں اور انسان ان کو ہلکا سمجھ کر ان کی باتوں میں آجا تا ہے ۔ عام طور پر مسلم معاشروں میں امن و امان میں بگاڑ پید اکر نے میں حصہ ڈالنا ، انار کی اور انتشار پھیلا نے اور انھیں مذاق بنا نے کا اہم سبب ہے ۔ ہر خلاف اصول حرکت، نا قابل قبول امن شکنی اور امن عامہ کے لئے خطر ناک کام کسی بھی صورت میں قبول نہیں ،کوئی عقل اسے روا رکھتی ہے اور نہ شریعت اس کی اجازت دیتی ہے ، بلکہ امن و امان خراب کر نے والے ہر عنصر کا تانا بانا ہمارے دشمن بنتے ہیں جو ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ کسی بھی انسانی سماج و معاشرے کے لئے امن و سلامتی کا وجود ایک ایسی ضرورت ہے جس کے بغیر نہ تو لوگوں کے دنیاوی مقاصد پورے ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی تجارت و کاروبار اور دیگر منافع کا تحفظ ممکن ہے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے انسانی معاشرہ کا ہر فرد خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم تسلیم کر تا ہے۔ کسی بھی سماج کے لئے اس کے افراد کا داخلی و انفرادی امن و سکون بالکل اسی قدر اہم ہے جس طرح کسی مضبوط دیوار کے لئے اس کی اینٹوں اور دیگر میٹریلس کا پختہ ہو نا ضروری ہے کہ دیوار کی مضبوطی کا دارومدار اینٹوں کی مضبوطی پر ہے۔ اسی طرح سماجی امن کا تصور بھی افراد کے داخلی سکون و اطمینان کے بغیر نہیں کیا جا سکتا ۔ تاریخ کے صفحات اس پر شاہد ہیں کہ بسا اوقات بعض افراد کے داخلی انتشار و فساد کی وجہ سے عظیم خو ن ریزیاںہو ئیں اور امن عالم تہہ و بالا ہو گیا ۔ بلا کو ، چنگیز خان، مسولین اور ہٹلر کی شخصیات کا بار یک بینی سے مطالعہ کیا جا ئے تو یہ بات اظہر من ا لشمس ہو جا تی ہے کہ ان کے نہاں خانہ ء دل میں جذبات و احساسات کا خلل نیزان کے ذہنی و قلبی انتشار ہی کے نتیجے میں کائنات ارضی سے چین و سکون غارت ہوا اور بے پناہ قتل و خون کا بازار گرم ہوا۔ قارئین حضرات ! امن اور امان کی حالت جا ننے کے لئے ضروری ہے کہ اس حقیقت کی پہچان جا معیت کے ساتھ ہو ، تنگ نظری اور بیہودہ افکاری سے خالی ہو ۔ امن کا مفہوم صرف معاشرے کو جرائم سے پاک کر نے، پولس اور سیکو ریٹی فورسیز کی ضرورت اور تشکیل تک محدود نہ ہو ، معاملہ کہیں بڑھ کر ہے ۔ ایک شہری کو خواہ مرد ہو کہ عورت ، چاہئے کہ وہ بذات خود امن پسند شہری ہو ں اور امن کے مفہوم کی جا معیت جانیں جس کی ابتدا پہلی نظر میں معاشرے کے عقیدے ،اللہ کے ساتھ گہری تعلق اور ہر اس چیز سے دوری ہے جو افراد معاشرہ کو امن کے بدلے خوف اور سکون کی جگہ اضطراب میں مبتلا کر دے۔ لہذا امن کے متعلق سب سے پہلا فریضہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ، الوہیت اور حکم میں شرک ، اس کے دین کے انکار یا اس کی شریعت کو لوگوں کو واقعاتی زندگی سے دور یا کسی غلط بہا نے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی شریعت سے لوگوں کے قانون کی مقابلہ آرائی سے بچنا اور دور رہنا ہے ۔ آج انسانیت تاریخ کے سنگین اور نازک دور سے گذر رہی ہے ۔ قتل و خونر یزی ، بد امنی و فساد، ظلم و نا انصافی ، جبروت و بر بریت اور بے حیائی نے نا سور کی صورت اختیار کر لی ہے ۔ اس وقت دنیا کے ماحول پر عسکریت کا غلبہ ہے ۔ اُنس و محبت کے خمیر سے پیدا کیا گیا انسان درندہ صفت بن گیا ہے ، اولاد آدم ایک دوسرے کے خون سے اپنی پیاس بجھا نے کے لئے بے قرار ہیں ۔ امیر لوگ، غریب بے بسوں اور لا چاروں کے خون و پسینے کا کاروبار کر نے لگے ہیں اور اسی سے اپنی زندگی کی عالی شان عمارت کھڑی کر تے ہیں ، خواہش نفس کے پیروی نے نیکی اور بدی کی پہچان بدل دی ہے ، خودغرض نے انسانیت کی قدریں پا مال کر دی ہیں ، معیار زندگی بلند کر نے کی ہو س نے لوگوں کو بد عنوانی کے جال میں پھنسا دیا ہے ۔ اور صرف اسی پر بس نہیں بلکہ اب تو نظام سیاست بیمار ہو چکی ہے، انتظامیہ کو روگ لگ گیا ہے ،معاشی نظام مرض کا شکار ہے ،عدلیہ کی ایمانداری کگار پر ہے ، قوانین بے بس ہو گئے ہیں ، انسانی اور اخلاقی قدریں پا مال ہو رہی ہیں ، چنگیزیت اور ہٹلر عروج پر ہے ، ظلم و جبر کا دور دور ہ ہے ، استحصال اور استغلال کی ہوا چل رہی ہے، اقوام عالم کی باگ ڈور ظالموں اور جا بروں کے ہاتھ میں ہے ، ظلم او ر نا انصافی کو بڑھا وا مل رہا ہے، علاقائی ، ملکی اور عالمی پیما نے پر انسانیت تضاد کا شکار ہے ، مفاد پرستی اور خود غرضی کے سیل رواں نے ہر انسان میں بے چینی اور اضطراب پید ا کر دیا ہے ، یہاں تک کہ عیش و آرام کے ہر طرح کے ساز و سامان کی فراوانی اور بہتات کے با وجود پوری دنیا حرص، طمع اور لالچ کی بھٹی میں جل رہی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ زر طلبی ، شکم پروری اور مادیت نے ہر طرف کرب و اضطراب ، بے چینی و بے اطمینانی اور حیرت و پریشانی کا زہر گھول دیا ہے ۔ اس پُر فریب اور خطرناک ماحول میں پوری دنیا امن کی تلاش میں سر گرداں ہے ۔ دھر تی سلامتی کی متلاشی ہے ، انسانیت سسک رہی ہے ، چیخ رہی ہے ، اور یہ سوال ہر کس و نا کس کے دل و دماغ میں گردش کر رہا ہے کہ امن ملے تو کہاں ملے؟ اور کیسے ملے ؟ اور اس خطرناک مرض کا علاج کیسے ہو ؟ لہذا قوم مسلم کو چاہئیے کہ امن ہو یا جنگ مسلمان میں متحد رہیں ۔