وادی میں مارچ کے آغاز کے ساتھ ہی نئے ذرعی سیزن کا آغاز بھی ہو جا تا ہے اور مارچ کے پہلے ہفتے سے ہی کسان سبزیوں کی بھوائی سے لے کر میوہ باغات میں کھادیں اور ادویات کے چھڑ کائو کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔ہمارے زرعی سیکٹر خاص کر مو ہ صنعت کے ساتھ پیش آنے والے المیوں میں سے ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں کھادیں اور زرعی ادویات اکثر و بیشتر غیر معیاری بیچی جا تی ہیں اور یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ پچھلی حکومتوں نے کھادوں اور ادویات کے معیار کو قائم رکھنے میں کوئی بھی قدم نہیں اْٹھایا بلکہ حکمرانوں کے اْس طبقے کی وجہ سے ہی یہاں پر یہ غیرقانونی اور غیر اخلاقی کا روبار پروان چڑ ھا۔انسان اْس وقت ورطۂ حیرت میں پڑ ھ جا تا تھا جب زرعی سیزن کے اختتام پر حکو مت کے متعلقہ محکمہ کی جانب سے متعدد ادویات اور کھادوں کے حوالے سے یہ رپورٹ اخبارات میں شائع کی جا تی تھی کہ یہ مصنوعات غیر معیاری تھیں اور کسانوں کو مشورہ دیا جا تا تھا کہ ان مصنوعات کا استعمال نہ کیا جا ئے۔اس وجہ سے ہمارا زرعی سیکٹر وہ نشوونما نہ پاسکا جس کا یہ حقدار تھا اور نہ ہی ہما ری میوہ صنعت وہ فروغ پاسکی جو یہاں کے انتہائی موافق ماحول میں اس کو مل جا نا چاہئے۔زبر دست جفا کشی اور محنت کے ساتھ ساتھ کھادوں اور ادویات پر بھا ری رقومات خرچ کر نے کے با وجود بھی ہمارے میو ہ جا ت کا وہ معیار قائم نہیں ہو سکا جس کے وہ طلب گار تھے اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ میوہ صنعت ہر سال کروڑوں روپے کے خسارہ جا ت سے دوچار ہوئی۔بھارت کی دو ریاستوں شملہ اور اْتر اکھنڈ کے سیب اور دیگر میو ہ جا ت اب کشمیری میوہ جا ت کے مقابلہ میں زیا دہ پسند کئے جانے لگے ہیں جو یہاں کی میو ہ صنعت کے لئے خطرے کی ایک گھنٹی ہے۔ہماری میو ہ صنعت جس کو کہ جموں وکشمیر کی اقتصادیات کی ریڑ ھ کی ہڑ ی کہا جا تا ہے میں یہ صلا حیت موجود ہے کہ یہ تعلیم یا فتہ بے روز گا ر نوجوانوں کی ایک بڑ ی تعداد کو روز گا ر فراہم کر سکتی ہے۔اگر حکو مت کے متعلقہ ادارے اس صنعت کے فروغ کے کا م کو سنجیدگی سے لے کر اس سلسلے میں مخلصانہ کو ششیں کریں گے تو یہ سیکٹر جموں و کشمیر کی معیشت کو تر قی کی اونچائیوں تک لے جا نے کی صلا حیت رکھتا ہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ ہما رے زراعت پیشہ افراد کو معیاری بیچ،کھادیں اور دیگر ساز و سامان مہیا کرایا جا نا چاہئے۔رواں برس محکمہ زراعت کی انفورسمنٹ ونگ نے قبل از وقت ہی کھادوں اور دیگر زرعی مصنوعا ت کے معیار کے حوالے سے ضروری کا روائی شروع کر دی ہے اور اس دوران انفورسمنٹ ونگ کی ٹیموں نے وادی کے کئی علاقوں میں ایسی کئی دکانوں اور گوداموں کو سر بمہر کر دیا جو بغیر اجازت اور غیر تسلیم شدہ کھادیں اور سپرے آئیل بیچ رہے تھے۔عوامی حلقوں نے متعلقہ حکام کی اس کا روائی کا خیر مقد م کر تے ہوئے اِسے زرعی اور باغبانی سیکٹر کی تر قی کا پیش خیمہ قرار دیا ہے تاہم اس دوران یہ با ت بھی لا زمی ہے کہ متعلقہ محکمہ کے اہلکا ر زرعی سیزن کے ان ابتدائی ایام میں وادی کے اطراف و اکنا ف میں اپنی سر گر میان جا ری رکھیں اور اس حوالے سے ذرائع ابلاغ کے نا م بھی یہ ہدایا ت جا ری کی جا نی چاہئیں کہ وہ زرعی یو نیو رسٹی اوردیگر متعلقہ اداروں کی جانب سے تسلیم نہ کی ہو ئی کھا دوں اور زرعی ادویات کے اشتہا ر نہ چلا ئیں تاکہ کا شتکا ر دھو کہ دہی کے شکا ر نہ ہو سکیں۔کسانوں کو بھی اس حوالے سے بیدار کئے جا نے کی ضرورت ہے اور محکمہ زراعت و باغبانی کے حکا م کو چاہئے کہ وہ کسانوں کو نقلی کھادوں اور ادویا ت کے حوالے سے بیدار کر نے کی خاطر جا نکا ری کیمپوں کا انعقاد کریں جن میں ما ہرین کسانوں کو ان چیزوں کے مضر اثرات سے متعلق بیدار کر سکیں۔دریں اثنا ء یہ بات بھی ضروری ہے کہ نقلی کھا دوں اور ادویات کے خلاف کر یک ڈائون کے دوران کسانوں کو معیاری کھادیں اور زرعی ادویات بھی مہیا رکھی جائیں تاکہ وہ نقلی مصنوعات کے استعمال پر مجبو ر نہ ہوں۔