مفتی غلام یسین نظامی
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
ناؤکاغذ کی سداچلتی نہیں
20فروری کو پو ری دنای میں سماجی انصاف کا عالمی دن منا یا جا تا ہے ۔اِس دن کو منانے کا مقصد بین الاقوامی برادری کی طرف سے غربت کے خاتمے،انصاف کے حصول اور تعلیم و روزگار کے بھرپور ویکساں مواقع فراہم کرنے کے اقدامات کو اُجاگر کرنا ہے۔نومبر 2007ء میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی نے قرارداد منظور کرتے ہوئے 20 فروری کو باقاعدہ طور پر یہ دن منانے کا اعلان کیا اور 2009ء میں پہلی مرتبہ اِس کو بین الاقوامی سطح پر منایا گیا۔اس موقع پر اقوام متحدہ سے مربوط جملہ ممالک،سماجی انصاف سے متعلق تقاریب منعقدکرتے ہیں؛جن میں دنیا کے مختلف معاشروں میں انصاف کے تقاضوں کو اجاگر کرنے اور وہاں کے شہریوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے کی اپیل کی جاتی ہے۔
آج اگرعالمی منظرنامے پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ دنیا کے بیشتر ممالک نہ صرف اپنی عوام کو بنیادی حقوق فراہم کرنے سے قاصر ہیں؛بلکہ ان ممالک میں بیرونی قوتوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی مداخلت وجارحیت وہاں کے باشندوں کے لیے سوہان روح بنی ہوئی ہے پھر نوجوان نسل کی بے روزگاری،فقیروں اور مسکینوں کی فاقہ کشی،فضائِ امن کو مکدرکرنے والوں کی فتنہ انگیزی،عدالتوں میں انصاف کے نام پر ہونے والی بدعنوانی اس پر مستزادہے۔محض زبان کے ذریعہ یہ کہنا کتنا دل کش ہے کہ سماجی انصاف کا عالمی دن سب کو یکساں انصاف فراہم کرنے کے لیے منایا جاتا ہے؛ لیکن حقیقت میں ایسا کہاں تک سہی ہے؟ آج کمزور کو انصاف کہاں ملتا ہے،مظلوم کی کون فریادررسی کرتاہے؟ محتاجوں کو کون سہارادیتاہے؟۔سماجی انصاف کا مطلب تو یہ ہوناچاہیے کہ معاشر ے میں بسنے والے تمام افراد کو ادنی اور اعلی کے امتیاز،رنگ ونسل کی تفریق اور مذہب ومسلک کی ترجیح کے بغیر یکساں اور مساوی حقوق حاصل ہوں،کسی کو کسی پر کوئی فضیلت اور فوقیت نہ ہو؛مگر افسوس صد افسوس کہ سماجی انصاف کا موجودہ تصور اورعدل ومساوات کا عصری رجحان،برائے نام محض انصاف کی دہائی دینے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے موقع بہ موقع منظر عام پر لایاجاتاہے اور زبانی جمع خرچ کے ذریعہ لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس کے برعکس تاریخ اسلام کے وہ سنہرے ادوارلائق دید اور قابل تقلید ہیں؛جن میں عالم انسانیت پر سدا عدل و انصاف کا پرچم لہراتا نظر آتا ہے۔
عصر حاضر میں قوموں کی درد انگیز داستانوں میں کئی ایک ایسی ہیں؛جنہیں سن کر انسانیت شرمسار ہو جاتی ہے،انصاف پر سے اعتماد اٹھ جاتاہے اور دنیااپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود تنگ دکھائی دیتی ہے۔مجھے بتائیے کہ دنیا کا وہ کون سا حصہ ہے جہاں آج ظلم اور فتنہ و فساد نہ ہورہاہو، جبر واستبداد کی حکمرانی نہ ہو،عدل و انصاف کے لیے لوگ محروم نہ ہوں؟ ہر طاقت، ہر ملک ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے لیے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے، ایک دوسرے پر قوت کا بے جامظاہرہ کرکے کمزوروں،مظلوموں اور نہتوں پر غیر انسانی اور غیر اخلاقی طور پر مسلط ہونے کے لیے بنی نوع انسان کا خون بہارہا ہے۔دنیا میں اس وقت جو بگاڑ آیا ہوا ہے یہ انصاف کے نہ ہونے کی بناء پرہے، ترازو نہیں دیکھتی کہ تولنے والا کون ہے اور کیا رکھا گیا ہے؟ ترازو صحیح ہے تو صاف بتادیتی ہے کہ یہ اتنے سیر ہے، اس کا اتنا وزن ہے، ترازو میں ایک رتی کا فرق نہ ہوگا، چاہے ہیرے جواہرات تُلیں۔زندگی کے ہر شعبے سے وابسطہ فرد کو ترازو ہی کی طرح منصف ہونا چاہیے تھا اگر آج ہمارے ملک میں انصاف ہوتا تو فسادات نہ ہوتے، شکایتیں نہ ہوتیں، مقدمات عدالتوں میں نہ جاتے، مظاہرے نہ ہوتے، جب انصاف تھا تو شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔اگر ہم دنیا کے حالات کا مطالعہ کریں اور مختلف بادشاہوں اورحکمرانوں کے دورحکومت کا جائزہ لیں تو ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ترقی یافتہ قوموں میں صرف ایک چیز مشترک تھی اور وہ یہ کہ ان ریاستوں میں عدل و انصاف کا معیار قائم تھا قانون سب کیلئے ایک تھا چاہے وہ کسی وزیر کا بیٹا ہو،چاہے کسی مزدور کا۔اگر گناہ کیا ہے تو سزا بھی ایک جیسی ہی ملے گی!
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پورے عالم میں اگر عدل و انصاف قائم ہوگیا تو دنیا بھر کے بہت سے مسائل کو حل کرنے کی جانب ایک مثبت پیش رفت ہو سکے گی اور کوئی بعید نہیں کہ عالمی عدالتیں اس میں کامیاب بھی ہو جائیں۔14سو سال پہلے اسلام کے نے عدل و انصاف کی جو تاریخ رقم فرمائی تھی اور عدل و انصاف کا جیسا نظام دینِ اسلام میں موجود ہے، روئے زمین میں بسنے والے تمام ذی روح و ذی شعور نفوس کے لیے مشعل راہ اور قابل تقلید ہے۔عدل و انصاف کے داعی رسول اللہ نے جرم کی سزا معافی کی سفارش پر جو جملہ ارشاد فرمایا تھا وہ رہتی دنیا تک بطور مثل و دلیل ہمیشہ پیش کیا جاتا رہے گا۔فرمایا: اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتیں تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔مصر کے گورنر حضرت عمروبن العاص جو مصر کے فاتح بھی تھے، ان کی گورنری کے زمانہ میں ایک مرتبہ گھوڑ دوڑ ہوئی، اس ریس میں ان کا بیٹا بھی شریک تھا، اس کے گھوڑے سے آگے ایک قبطی کا گھوڑا بڑھنے لگا تو گورنر زادے نے اس قبطی کو ایک طمانچہ مارا، یہ کہتے ہوئے کہ دیکھ!شریف زادے کا تھپڑ ایسا ہوتا ہے، وہ معمولی شہری تھپڑ کھاکر سیدھا مدینہ پہنچا اور اس نے امیر المؤمنین حضرت عمر سے شکایت کی، وہاں سے طلبی ہوئی کہ گورنر عمرو بن العاص مع اپنے بیٹے کے حاضر ہوں، دونوں پہنچے، ایک دربار سا لگا، اور حضرت عمر نے سب کے سامنے اس قبطی کو کہاکہ ایک تھپڑ اسی طرح تم گورنر زادے کو میرے سامنے مارو جیسا اس نے تمھیں مارا تھا، اس قبطی نے تھپڑ مارا، اس کے بعد جو الفاظ حضرت عمر نے کہے وہ ہم کو فخر کرنے کے لائق ہیں،ا نھوں نے کہا کہ تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام بنالیا، حالانکہ یہ اپنے ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوئے تھے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز کے نام سے کون واقف نہیں جن کے دورِ خلافت کاہر ورق سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ان کے دور میں سابق خلیفہ ولید بن عبدالملک کے ایک شہزادے روح نے کچھ لوگوں کی دکانیں غصب کررکھی تھیں۔ شہزادے کاکہناتھا کہ اسے یہ دکانیں جاگیر میں ملی ہیں۔ دکان کے اصل مالکان نے شہادتوں اور ثبوتوں کے ساتھ عمر بن عبدالعزیز کے ہاں فریاد کی۔آپ نے شہزادے کو حکم دیا کہ دکانیں واپس کردو۔ وہ بولا:میرے پاس خلیفہ ولید بن عبدالملک کی تحریر موجودہے۔آپ نے فرمایا:جب دکانیں ان لوگوں کی ہیں اوراس کے ثبوت موجودہیں تو خلیفہ ولید کی تحریر کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔مجلس برخاست ہوئی توروح نے باہر جاکر ان فریادیوں کو دھمکاناشروع کردیا۔انہوں نے عمر بن عبدالعزیز کو آگاہ کردیا۔آپ نے اپنے پولیس افسرسے کہا:شہزادے کے پاس جاؤ۔اگر وہ دکانیں مالکان کے حوالے کردے تو ٹھیک،ورنہ اس کاسر کاٹ لاؤ۔شہزادے کویہ اطلاع مل گئی۔اس دوران پولیس افسر بھی آن پہنچا اورتلوار کومیان سے ایک بالشت کھینچ کرکہا:ان کی دکانوں کا قبضہ انہیں دے دواوردکانیں مالکان کے حوالے کردیں۔
عدل و انصاف کا یہ پیمانہ عالم انسانیت میں قیام انصاف کے لئیے بنیادی اینٹ کی حثیت رکھتا ہے۔اس سلسلے میں جان لیں کہ انصاف کی فراہمی کے لیے انصاف پسندی کا ہونا بہت ضروری ہے۔جو قومیں انصاف پسند نہیں ہوتیں وہ معاشرتی طور پر ہرگز انصاف نہیں کر سکتی ہیں، آج کے عہد میں تو تعصبات کی کھائی اس قدر عمیق ہو چکی ہے کہ بس اپنا مذہب، اپنا مسلک، اپنا وطن، اپنا دوست، اپنا گھر، اپنا پریوار، اپنے رشتے دار، اپنا قائد اور اپنی جماعت ہی بیشتر لوگوں کو اچھی اور سچی لگتی ہے باقی سب جھوٹے ہیں ان کے نظر میں۔انصاف ہر معاشرے کا حسن اور اس کی بنیادی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ ہمیشہ سے ایسے حکمرانوں کو پسند کرتے آئے ہیں، جنہوں نے عدل و انصاف کو اپنا شعار بنایا خواہ وہ بادشاہ تھے، جمہوری حکمران یا کسی جماعت و جمعیت کے سربراہ۔دنیا کے تمام آئینوں کی بنیاد معاشی، معاشرتی اور سیاسی انصاف پر رکھی جاتی ہے۔ لہٰذا معاشرے کے لیڈروں سے بھی انصاف کی فراہمی کے لیے ہرممکن کوشش کرنے کی توقع رکھی جاتی ہے۔دوسری جنگ عظیم کے وقت یورپ پر ہٹلر کے حملوں کے دوران انگلستان کے مختلف طبقات میں ملکی تحفظ کے متعلق سنگین قسم کے خدشات جنم لے رہے تھے۔ جب ان خدشات کا ذکر جب چرچل سے کیا گیا تو جواباً اس نے پوچھا کہ: کیا ہمارے ملک میں عدالتیں لوگوں کو انصاف فراہم کر رہی ہیں؟جواب اثبات میں ملا تو چرچل نے کہا۔ اگر ہماری عدالتیں لوگوں کو انصاف فراہم کر رہی ہیں تو ہمارے ملکی تحفظ کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔دنیا کے تمام مذاہب نے ایک نصب العین کی حیثیت سے انصاف کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ آج کے دور میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے، کیونکہ یہ آئین، قانون اور انصاف کا دور ہے لیکن آج کے اسی دور میں انصاف کے حصول کے لیے لوگوں کو سالہا سال تک بھٹکنا پڑتا ہے اور اس کے باوجود بھی انصاف کے حاصل ہو جانے کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔