تحریر:شاہد محبوب راتھر پستونہ ترال کشمیر
ڈرگس دنیا کا وہ غذاب ہے جس میں اگر ایک بار انسان مبتلا ہواہے تو پھرموت کے مُنہ تک پہنچنے کے بعد ہی دم لیتا ہے،ڈرگس یا منشیات کے مختلف اقسام ہیں جن میں ہیروئن بھی ایک نام ہے جس نے بھی یہ استعمال کیا ہے آج تک دیکھا گیا ہے اس کا انجام انتہائی عبرتناک تھا ۔ڈرگس پھیلانے والے شخص کا مقصدر پیسے کمانے کے ساتھ سماج کو تباہی و بربادی تک پہنچانا ہوتا ہے ۔ڈگرس فروخت کرنے والوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے ۔پیسہ کمانا ان کا بڑا مقصد ہوتا ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ وہ نوجوانوں کی زندگیوں کو کس طرح جہنم بنا دیتے ہیں ۔کچھ لوگوں اسی منشیات کے ذریعے سے دشمنی کابدلہ بھی لیتے ہیں۔جبکہ اس میں ایک ملک دوسرے ملک کو تباہ کرنا بھی چاہتا ہے اس طرح کے اقدام سے بھی نوجوان نسل یا باقی لوگوں کو موت کے منہ میں دکیلاجاتا ہے جب ہم باریک بینی سے دیکھتے ہیں تو ہر ایک کو یہ فکر رہتی ہے کہ ان کا بچہ کسی نشے کا عادی نہیں بننا چاہے لیکن بیشتر والدین اور گھر کے بڑے افراد اپنی زمہداریوں سے دور ہوتے ہیں۔آج ہم اپنے معاشرے میں دیکھتے ہیں تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو نشے میں مبتلا ہوئے ہیں یا انہیں مبتلاکیا گیا ہے جس کی طرف اگر فوری طور توجہ نہ دی گئی تو یہ سماج غرق ہوسکتا ہے اللہ بچائے۔یہ ایک انسان کی زمہداری نہیں ہے بلکہ یہ ہر ایک کی زمہداری ہے چاہے وہ سرکاری ہو یا غیر سرکار مسلمان ہو یا ہندو کیوں کہ جب کوئی طوفان آتا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتا ہے کہ اس کا مذہب کیا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اکثر والدین یا گھر کے افراد کو یہ معلوم نہیںہوتا ہے کہ ان کا بچہ یا گھر کا کوئی فرد نشے میں مبتلا ہے ۔تو انہیں بچوں پر گہری نظر رکھنے کی ضروت ہے ۔نشے کے عادی انسان میں کچھ علامات پائے جاتے ہیں جن میں ان کی آنکھیں سرخ ہونا،سر میں گنودگی ہائی جارہی ہے،سنائی کم دیتا ہے۔ہاتھوں اور پاﺅں میں جیسے جان نہیں ہوتی ہے،زیادہ دیر تک سوتے رہنا،بات کرتے وقت زبان لڑ کھڑانا،اپنی ہی دنیاں میں کھوئے رہنا وغیرہ قابل ذکر ہے جس کی طرف گھر کے سبھی افراد کے ساتھ ساتھ خاص کر والدین کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
تحقیق یا تحقیقاتی اداروں کے افسران کے ذریعے سے معلوم ہوتا ہے نشے کا عادی انسان کو جب نشہ نہیں ملتا ہے تو اس کے جسم میں درد محسوس ہوتا ہے اور یہ عادی شخص خود کشی پر اتر آتا ہے اور اسے اس نشے کو بیک وقت چھوڑنا نا ممکن بن جاتا ہے۔اس طرح کے لوگوں کو بھوک نہیں لگتی نہ ہی پیاس بس نشے کی تلاش میں رہتے ہیں۔نشے کی وجہ سے انسان اندر سے ہی کھوکھلا ہوجا تا ہے لوگ جوانی میں مر جاتے ہیں ۔ڈرگس یا منشیات جتنی بڑی لعنت ہے اتنی ہی تیزی کے ساتھ دنیا میں پھیل رہی ہے ۔سماج کا ہر شخص اس لعنت سے خود کو دور رکھنا چاہتا ہے لیکن ایک نہ دوسرے طریقے سے اس جھال میں پھنس جاتے ہیں۔سرکار کی جانب سے ہر روز کسی نہ کسی علاقے میں پولیس اس کام میں مبتلا لوگوں کو گرفتار کر کے جیل بیجتی ہے ۔ایک اچھا قدم ہے لیکن ایک بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ شراب کھلے عام کیوں فروخت ہو رہی ہے پھر منشیات کے کار بار میں مبتلا لوگوں کو گرفتار کرنے سے کیا فایدہ ہوتا ہے تمام منشیات کے ساتھ ساتھ شراب پر بھی مکمل پابندی عائد ہونی چاہے تاکہ ہم اپنے نوجوانوں کو وبچا سکیں گے ۔
موجودہ دور میں ضرورت اس بات کی ہے سماج کے ہر شخص کو بلا لحاظ مذہب سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر اس لعنت کے خلاف کام کرنا وقت کی ایک اہم ضروت ہے تاکہ ہم ملک یا قوم کے نوجوان نسل کو بچا سکیں گے اور ہر ایک کو اپنا رول ادا کرنا ہوگا،
جن بچوں یا نوجوانوں کو اس لعنت میں مبتلا کیا گیا ہے یا مبتلا ہوئے انہیں اپنانے کے ضرورت کے ساتھ ساتھ انہیں دوستانہ روہے میں اس لعنت سے آزاد کرنے میں ہر انسان کو اپنا رول ادا کرنا ہوگا۔نفرت ہمیں ان لعنت کے پھیلانے والوں کے ساتھ کرنی چاہے جنہوں نے پھول جیسے نوجوانوں کی زندگیوں کو جہنم بنا دیا ہے،
(نوٹ مضمون نگار کے آراءسے ادارے کا متفق ہونا لامی نہیں)