سید اعجاز
سری نگر:یکم جنوری: لرگام ترال میں محکمہ پی ایم جی ایس وائی نے ایک سڑک تعمیر کی ہے جس دوران ایک بیوہ خاتون کا زمین اورفصل دینے والے اخروٹ کے تین بڑے درخت بھی آئے ہیں تاہم تمام لوزامات پورے کرنے کے بعد متاثرہ کنبے کو متعلقہ محکمہ معاوضہ فراہم کرنے سے انکار کر رہا ہے جس کی وجہ سے یہ کنبہ شدید پریشانیوں کا سامنا کررہا ہے۔پی ایم جی ایس وائی کے ایک افسر نے بتایا ہم نے ان کے درخت کاٹے اور زمین استعمال کی ہے جس سے متعلق ہم نے اپنی طرف سے انہیں سرٹفکیٹ بھی دی ۔ادھر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ترال شبیر احمد رینہ نے بتایا انہیں دو روز قبل اس کے بارے میں علم ہوا وہ پیر کے روز اس مسئلے کو دیکھ لیں گے۔تفصیلات کے مطابق جنوبی کشمیر کے سب ضلع ترال کے پانزوسے شاجن نامی گاﺅں کے لئے 2017میں ایک روڑ پروجیکٹ کو تعمیر کرنے کی منظوری مل گئی ہے جس کے بعد محکمہ پی ایم جی ایس وائی نے سے سڑک کا صفر لرگام گاﺅں سے شروع کیا ہے ۔صفر کے مقام پر علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک بیوہ خاتون شہزادہ بیوہ عبد الرحمان گنائی ساکن لرگام کے قریب2مرلے اراضی اور 3اخروٹ کے درخت جن کی عمر قریب45سال تھی جو فصل دیتے تھے اور مزکورہ بیوہ کے چھوٹے بچے ہیں جن کا گزارہ وہ انہیں اخروٹ کے درختوں کا فصل فروخت کر کے گھر چلا رہی تھی ۔انہوں نے کہاکہ مزکورہ تینوں درختوں پر محکمہ پی ایم جی ایس وائی کے افسران نے صفر مقام پر ان پر نشانہ لگایا گیا اور کاٹنے کے لئے اجازت حاصل کرنے کے لئے باضابط طور کارروائی شروع کی ہے۔ انہوں نے بتایا اس کے بعد اس وقت کے تحصیلدار آری پل نے یہ خط ہارٹیکلچر ڈویلپمنٹ آفیسر ترال کو بھیج دیاتاکہ اخروٹ کے درختوں کا قیمیت مقرر کیا جائے۔ باغبانی افسر ترال نے pmgsy کے عہدیداروں اور محکمہ محصولات کے ساتھ خط نمبر کے تحت مذکورہ اخروٹ کے درختوں کی قیمت341550روہے مقرر کیا گیا ۔ متاثر خاتون نے بتایا2022 اور پھر حکومتی حکام نے مجھ سے کہا کہ اس وقت آپ کو معاوضہ دیا جائے گا۔ اب آپ کو اخروٹ کے درخت کاٹنا ہوں گے۔ اس کے بعد تحصیلدار آری پل نے ایک نیا خط (57/0Q/TA 19/04/2022) ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ترال کو بھجوایا تاکہ اخروٹ کے درختوں کو کاٹنے کی اجازت دی جائے۔ اے ڈی سی ترال نے اپنے خط نمبر (ADC/TRAL/LA/2022-23/04-08) (23/04/2022) کے ساتھ یہ فائل ڈپٹی کمشنر پلوامہ کو بھجوائی تاکہ اخروٹ کے درختوں کو کاٹنے کی اجازت دی جائے۔ اجازت کے لیے ڈویڑنل کمشنر کشمیر کو بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد ڈوویژنل کمشنر کشمیر نے اپنے خط نمبر کے ساتھ اجازت دے دی۔ (Divcom/TS/1844/318-25) مورخہ 24/06/2022۔پرمٹ نمبر۔32. اس عمل میں میں دفتر سے دفتر تک ایک طویل وقت گزارتا ہوں۔ اجازت کے بعد میرے درخت بالکل کاٹ دیے گئے اور میری زمین کو سڑک کے استعمال میںلایا گیا۔ مذکورہ اخروٹ کے ٹریس کو کاٹنے کے بعدپی ایم جی ایس وائی ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں JE-AEE-اور axen کے دستخط شدہ مذکورہ درختوں کا سرنڈر کیا۔ اس کے بعد میں سرنڈر سرٹیفکیٹ لے کر کلکٹر اراضی حصول پلوامہ کے پاس معاوضہ جاری کرنے کے لیے پہنچا۔ کلکٹر اراضی کے حصول کے عہدیداروں نے معاوضے کی فائل (73/0Q/TA DATED 26/04/2022) واپس کردی اور کہا کہ یہ آپ کے درختوں پر معاوضہ نہیں دے گا۔ زمین کے حصول کے عہدیداروں نے کہا کہ یہ سب غلط ہے۔ اگر یہ سب غلط تھا تو کیوں؟ کلکٹر لینڈ ایکوزیشن کے ان ہی عہدیداروں نے
26/04/2022کو میری اخروٹ کاٹنے سے پہلے اس وقت میری معاوضہ فائل وصول کی۔ کلکٹر اراضی حصول میں ایک اہلکارنےاس وقت فائل میں موجود تمام دستاویزات چیک کیں۔ اور اس وقت انہوں نے مجھے سیل کے ساتھ فائل کی رسید دی تھی۔ جس کی فوٹو سٹیٹ کاپی میرے پاس دستیاب ہے۔ آخر کار اخروٹ کے درختوں کو کاٹنے کے بعد انہوں نے معاوضے کی فائل واپس دی اور بتایا کہ اس کیس سے متعلق تمام دستاویزات غلط ہیں۔بیوہ خاتون کے بیٹے نے بتایا نے میں کئی بار وہاں گیا وہ یہ کہتے ہے کہ ہم آپ کے کیس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتے ۔انہوں نے کہا کہ میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے۔میں اپنے خاندان کا اکیلا بیٹا ہوںاور میری ایک چھوٹی بہن اور والدہ ہے اور بے روزگار ہوں۔ میں 90 فیصد اپنے خاندان کو ان اعلی پیداوار والے اخروٹ کے درختوں سے حاصل ہونے والی سالانہ آمدنی سے چلا رہا تھا۔ اب حکومتی اہلکاروں نے میرے گھر والوں کی روزی روٹی چھین لی ہے میں ان کے خلاف کچھ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا ہوںاس لئے ہم لیفٹیننٹ گورنر صاحب اور ڈپٹی کمشنر پلوامہ سے عاجزانہ درخواست کرتا ہوں..براہ کرم اس معاملے کو دیکھیں۔اس حوالے سے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ترال شبیر احمد رینہ نے بتایا مزکورہ بیوہ خاتون کے بچے نے سنیچر کے روز مجھے ایک پیغام بیجا ہے اور پیر کو انہیںدفتر طلب کیا ہے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ اصلی مسئلہ کیا ہے۔