حافظ تائب ریاض :رٹھسونہ ترال
متعلم :جامعہ سراج العلوم ہلو امام صاحب شوپیاں
اللہ تعالی نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے جن کا ادراک کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ان نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت انسان کی زندگی ہے۔ زندگی اللہ کی دی ہوئی ایک بہت بڑی نعمت ہے یہ ایک ایسی نعمت ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ جو جب انسان کے قبضے سے چلی جائے تو اس کا دوبارہ حاصل کرنا محال ہے۔یہ انسان کی محنت سے پائی ہوئی نعمت نہیں بلکہ اس کائنات کے رب کا عطیہ ہے۔ یہ انسان کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ اللہ کی عطا کردہ امانت ہے۔ تو جو شخص اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہے وہ کسی کی امانت میں خیانت نہیں کر سکتا ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ "جس شخص میں امانت داری نہیں نہیں اس میں ایمان نہیں”(مشکوة ). یہ زندگی تو اللہ کی دی ہوئی امانت ہے جب ہم اللہ کے ساتھ ہی خیانت کریں گے تو ہمارا کیا حال ہو گا؟ اسی لئے اسلام نے جسم و جان کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے تمام افراد معاشرہ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ وہ بہر صورت زندگی کی حفاظت کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے خودکشی(suicide) کو حرام قرار دیا ہے اسلام کسی انسان کو خود اپنی جان تلف کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا ۔جس دین میں دوسرے شخص کو موت کے گھاٹ اتارنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہو وہ اپنی زندگی کو ختم کرنے یا اسے بلاوجہ تلف کرنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے ۔ارشاد ربانی ہے ۔
"جس نے کسی انسان کو بے وجہ قتل کیا ،گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی” ۔(سورہ المائدہ)
انسانی جان کو جو رفعت وبلندی اسلام نے عطا کی ہے اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام نے بغیر کسی وجہ کے ایک فرد کے قتل کو تمام انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔ یہ آیت مبارکہ اسلام کے نظریہ اور اسلام کی تعلیمات کو واضح کرتی ہے اور ہمیں یہ سمجھنے پر مجبور کرتی ہے کہ اسلام کی نظر میں انسانی جان کی کس قدر اہمیت ہے اور اسلام کس قدر امن و سلامتی کا مذہب ہے اللہ تعالی کے ہاں جان کی اہمیت کا اندازہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی کے نزدیک پوری کائنات کا ختم ہوجانا کسی شخص کے ناحق قتل ہو جانے سے زیادہ ہلکا ہے۔اب دیکھئے جب کسی دوسرے کو جان سے مار ڈالنا اسلام کی نظر میں حرام ٹھرا تو اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی انسان کا خود اپنے آپ کو مار ڈالنا کتنا بڑا حرام کام اور کیسی گھناونی حرکت ہوگی۔ارشاد ربانی ہے۔
” اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور صاحبان احسان بنو, بے شک اللہ تعالی احسان والوں سے محبت فرماتا ہے”۔ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا۔
"اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہیں اور جو کوئی تعدِّی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے( دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے اور یہ اللہ پر بالکل آسان ہے”(النساء ۔29.30)
اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی علیہ الرحمہ اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں لکھتے ہیں کہ، اس فقرے یعنی (ولا تقتلوا انفسکم) کے دو معنی ہے ۔یہ کہ ایک دوسرے کو قتل نہ کرو دوسرے یہ خودکشی نہ کرو۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ( ولا تقتلوا انفسکم) میں دو حکم داخل ہیں۔ ایک یہ کہ ایک دوسرے کو ناحق قتل نہ کیا جائے، کہ اپنے لوگوں کا قتل اپنا ہی قتل ہے۔ اور دوسرے: خود کشی نہ کی جائے یہ دونوں ہی صورتیں حرام اور شدید گناہ ہے۔
علامہ غلام رسول سعیدی تبیان القرآن میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کے تین معنی ہیں۔ پہلا، ایک دوسرے کو قتل نہ کریں۔ دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ، کوئی ایسا کام نہ کرو جس کے نتیجے میں تم ہلاک ہو جاؤ اور اس آیت کا تیسرا معنی یہ ہے کہ مسلمانوں کو اللہ تعالی نے خود کشی کرنے سے منع فرمایا ہے اور اسی آیت کی بنا پر خود کشی کرنا حرام ہے”۔
اس آیت کے ذیل میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ حدیث نقل کی جاتی ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا۔غزوہ ذات السلاسل کے موقع پر ایک سرد رات کو مجھے احتلام ہوگیا میں ڈرا کہ اگر میں غسل کروں گا تو ہلاک نہ ہو جاؤں، چناچہ میں نے تیمم کیا اور اپنے ساتھیوں کو صبح کی نماز پڑھادی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے جنابت میں ہی ساتھیوں کو نماز بھی پڑھا دی ؟ میں نے غسل سے جو رکاوٹ مجھے درپیش تھی آپ کے گوش گزار کر دی’ اور یہ بھی عرض کیاکہ میں نے اللہ پاک کو سنا وہ فرماتا ہے ولا تقتلوا انفسکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سنا تو ہنس پڑے اور پھر کچھ نہیں کہا۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ائمہ تفاسیر کے نزدیک بھی یہ آیات خودکشی کی حرمت اور ممانعت پر دلالت کرتی ہیں۔
مزید احادیث مبارکہ میں بھی خودکشی کی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی پہاڑ سے گر کر خود کشی کرے گا وہ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گرتا رہے گا۔اور جو شخص زہر پی کر خودکشی کرے گا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دوزخ کی آگ میں زہر پیتا رہے گا اور جس نے لوہے کے کسی ہتھیار سے خودکشی کی ہوگی وہ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسی ہتھیار کو اپنے پیٹ میں بھونکتا رہے گا اور کبھی بھی اس کو رہائی نصیب نہیں ہوگی۔(بخاری،مسلم ،ترمذی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ بھی منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے اپنا گلا گھونٹ کر خودکشی کی وہ آتش دوزخ میں بھی اپنا گلا گھونٹتا رہے گا جس نے (چھرا وغیرہ) بھونک کر خود کشی کی دوزخ کی آگ میں بھی وہ اسی کو بھونکتا رہے گا جو کوئی اوپر سے گرا ہو گا وہ جہنم میں بھی اسی طرح گرتا رہے گا۔(بخاری)
حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے کسی بھی چیز کے ساتھ خودکشی کی تو اس کو جہنم کی آگ میں اسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جاتا رہے گا۔(بخاری،مسلم،نسائی)
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ایک شخص کو کوئی زخم آیا۔اس نے اپنا ایک ترکش لیا اور اس میں چوڑے پیکان کا ایک تیر نکالا اور اس سے اپنے آپ کو ذبح کر لیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔
حضرت جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے متفق علیہ حدیث مبارکہ مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا’’تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی زخمی ہو گیا۔ اس نے بے قرار ہوکر چھری لی اور اپنا زخمی ہاتھ کاٹ ڈالا۔ جس سے اس کا اتنا خون بہا کہ وہ مرگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے خود فیصلہ کر کے میرے حکم پر سبقت کی ہے، لہٰذا میں نے اس پر جنت حرام کر دی۔‘‘(بخاري)
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے تیر کے ذریعے خودکشی کرلی تو حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھاؤں گا۔‘‘(نسائي)
مندرجہ بالا احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خودکشی اسلام کی نظر میں کتنا برا فعل اور کتنا بڑا گناہ ہے بہت سے ناجائز امور کی سزا تو جہنم ہوگی مگر خود کشی کے مرتکب کو بار بار اس سے گزارا جائے گا۔مزید جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا کہ زندگی اللہ کی دی ہوئی ایک نعمت ہے ۔اور خودکشی کرنے والا اپنے اس فعل بد کے جواز کے لئے خواہ کتنی ہی گنجائش اور حیلے کیوں نہ تلاش کر لے اس کا یہ اقدام کسی صورت بجا ثابت نہیں ہوسکے گا۔یہ دراصل شیطان کا فریب اور دھوکا ہے کہ انسان خود کشی کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے اور انسان کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ شادی غمی اور دکھ سکھ کا دوسرا نام ہی زندگی ہے۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا ارشاد ہے
فلاخوف بدوم ولا سرور ولا باس عليك ولا دخاء
فلا تجزع لحادثة الليالى فما لحوادث الدنيا بقاء
نہ غم کو دوام، نہ کوئی خوشی ہمیشہ رہے گی
نہ سدا تنگی رہے گی نہ تم ہمیشہ آسودہ حال رہو گے
لہذا شب و روز کے حوادث پر آنسو مت بہاؤ اس لیے کہ دنیا کے حوادث بھی ہمیشہ نہیں رہیں گے ۔
ایک مسلمان کی شان یہی ہے کہ وہ ہر بلا اور مصیبت پر صبر کرے۔مصیبت پر صبر کرنے والوں کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔
"جو لوگ صبر کرنے والے ہیں ان کو ان کا ثواب بے حساب ملے گا ۔”۔ (الزمر)
الغرض ایک انسان ہر قسم کی اذیتوں اور تکلیفوں سے نجات کے لئے خدا پر ایمان رکھے اور اللہ سے ہمیشہ دعاگو رہے اور خودکشی جیسے بد ترین اور گھناؤنی حرکت کا ارتکاب نہ کریں۔