سری نگر:۹،فروری:سرکاری اورکاہچرائی اراضی کی بازیافت کیلئے جاری مہم کے چلتے صوبائی انتظامیہ کشمیر نے محکمہ مال کے افسروں وملازمین کوہدایت دی ہے کہ لاپتہ افراد کی زرعی اراضی کی فروخت بند کی جائے۔انتظامیہ نے کہاکہ انکوائری کے بعد فرض کریں کہ وہ(لاپتہ افراد) مردہ ہیں۔جے کے این ایس کے مطابق ایک میڈیا رپورٹ میںکہاگیاہے کہ یونین ٹیریٹری انتظامیہ نے ایک حکم جاری کیا ہے اور تحصیلداروں سے کہاگیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ لاپتہ افراد کی زرعی اراضی ان کے کنبہ کے افراد فروخت نہ کریں، یا فصل سے حاصل ہونے والی آمدنی کو کوئی تیسری پارٹی استعمال نہ کرے۔ انتظامیہ نے تحصیلداروں سے کہا ہے کہ وہ ان لاپتہ افراد کو ’مردہ مردہ‘ قرار دیں، اور ایسی اراضی کے ریونیو دستاویزات جاری نہ کریں۔ڈویڑنل کمشنرکشمیر کے دفتر کی طرف سے31 جنوری کو جاری کردہ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ یہ شبہ ہے کہ ایسی جائیدادوں کو ملی ٹنسی کی مالی معاونت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔موقر انگریز ی اخبار انڈین ایکسپریس میں چھپی میڈیا رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ یہ جائیدادیں زیادہ تر ان لوگوں کی ہیں جو ملی ٹنسی کے عروج کے دوران پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر گئے تھے اور تب سے واپس نہیں آئے ہیں۔ ان میں سے کچھ کا تعلق ایسے لوگوں سے بھی ہے جن کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ ملی ٹنسی میں شامل ہوئے ہیں اور برسوں سے ان کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔ڈویڑنل کمشنرکشمیر کے دفتر کی طرف سے جاری آرڈر کے مطابق، حال ہی میں تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ بارہمولہ ضلع کے ٹنگمرگ میں زمین کے کچھ پیچ ایسے لوگوں کے ہیں جن کا پتہ نہیں چل سکا ہے اور اُنہیں ان زمینوں پر پیدا ہونے والی فصلوں کا کوئی حصہ نہیں مل رہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ مزید تفتیش میں وادی کی تمام تحصیلوں میں ایسے زمینی معاملات پائے گئے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ پولیس نے اُنہیں مطلع کیا کہ ایسی جائیدادوں کوملی ٹنسی کی مالی معاونت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے،اسی لیے یونین ٹریٹری میں تمام تحصیلداروں کو ایک حکم جاری کیا گیا ہے کہ وہ انکوائری کریں، ایسے زمین پلاٹوں کو نشان زد کریں، اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کا غلط استعمال نہ ہو۔قواعد میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی زمینداریازمین مالک گاو¿ں سے غائب ہے اور 7 سال سے زیادہ عرصے تک زمین پر کاشت یا پیداوار کا حصہ نہیں لیتا ہے، تو اسے’غیر حاضر/غیرقابض (موجودہ نہیں/قبضے میں نہیں) کے طور پر نامزد کیا جائے گا۔ آرڈر کے مطابق ایسی صورت حال میں، معقول کوششوں،انکوائری کے بعدمتعلقہ تحصیلداریہ سمجھے گا کہ وہ لاپتہ شخص مر گیا ہے اور اسی کے مطابق کیس پر حکم جاری کرے گا۔ریونیو ریکارڈ میں باضابطہ اندراج کرنے سے پہلے، وہ (تحصیلدار) متعلقہ ڈسٹرکٹ کلکٹر سے اس کی تصدیق ورمنظوری بھی کرائے گا۔ایسے غیر حاضر/غیرقابض افراد کے حصہ کو خاندان کے افراد، دوسرے شریک (خون کے رشتے میں) استعمال کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ تاہم، وہ بیچنے، تحفہ دینے یا کسی بھی طریقے سے حصہ کو الگ کرنے کے حقدار نہیں ہوں گے،یا کسی بھی طریقے سے جائیداد میں فریق ثالث کی دلچسپی پیدا کریں۔ انتظامیہ نے حکم دیا ہے کہ ایسی زمینوں کا کوئی فردِِ اِنتحاب (ریونیو دستاویزات) جاری نہیں کیا جائے گا۔اس سلسلے میں تحصیلداروں سے ضروری اندراج کرنے کو کہتے ہوئے حکم میں کہا گیا ہے کہخصوصی ڈی جی، سی آئی ڈی کے دفتر سے مخصوص ان پٹ موصول ہوا ہے، جس میں یہپایا گیا ہے کہ ایسی غیر حاضر/غیر قابض جائیدادیں ملی ٹنسی کی مالی معاونت کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ غلط استعمال کی مخصوص مثالیں ہیں۔آرڈر میں واضح کیا گیا ہے کہ اس کا اطلاق تارکین وطن کی جائیدادوں پر نہیں ہوتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ ان مظلوم اقلیتوں کی جائیدادیں متاثر نہ ہوں جنہیں خوف کے مارے وادی چھوڑنا پڑی۔