جموں وکشمیر خاص کر وادی اپنے خشک و تر میو ہ جا ت کے لئے پوری دنیا میں ایک الگ اور منفرد مقام رکھتی ہے ۔یہاں کے مختلف النوع میو ہ جا ت اپنے ذائقے اور مٹھا س کے ساتھ ساتھ غذائیت کے لئے ہر کس و نا کس کی پہلی اور آخری پسند ہیں ۔جموں و کشمیر کی اقتصادیات میں یہاں کی میو ہ صنعت کا حصہ کا فی بڑا ہے اور یہاں کی ساٹھ سے ستر فیصد آبا دی روز گا ر کے اعتبا ر سے بالواسطہ یا بلا واسطہ اس صنعت کے ساتھ وابستہ ہے ۔تاہم پچھلی کم و بیش ایک دہا ئی سے ہما ری میو ہ صنعت ہر گزرتے دن کے ساتھ روبہ زوال ہو رہی ہے اور اس سے بھی تشویشنا ک با ت یہ ہے کہ حکو متی سطح پر اس صنعت کو بچانے اور اس سے منسلک لوگوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے کئے جانے والے اقدامات نہ ہو نے کے برابر ہیں ۔ پچھلے سیزن میں اگر چہ سیب کی قیمتیں ابتدائی طور کافی اچھی رہی تھیں تاہم بعد میں ایرانی سیب کے آنے کی وجہ سے یہاں کے سیب کی قیمتوں میں یکایک گراوٹ درج کی گئی اور پھر نو بت یہاں تک پہنچی کہ سیب کی صنعت کے ساتھ وابستہ تاجروں کو سڑکو ں پر آکر احتجاج کر نا پڑا جبکہ تاجر انجمنوں نے ملک کے وزیر اعظم نر یندر مو دی کے نام بھی مکتوب روانہ کیا کہ وہ اس معاملہ میں مداخلت کریں ۔ اخروٹ اور با دام جیسے خشک میو ہ جا ت کا حال یہ ہے کہ انتہا ئی محنت و مشقت کے با وجود اس سے منسلک لوگوں کو ان کی محنت کی بھر پور کما ئی نہیں مل رہی ہے ۔پچھلے کئی سال سے بادام اور اخروٹ کے میو ہ کی پیداوار میں لگا تار گراوٹ درج کی جا رہی ہے اور حالا ت یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ بادام کے با غات اب ناپید ہو نے لگے ہیں جبکہ سرکا ری تحفظ کے با وجود اخروٹ کے پھل کا بھی یہی حال ہے ۔پچھلے چند سال کے اعداد و شما ر سے یہ با ت روز روشن کی طرح عیا ں ہو جا تی ہے کہ اخروٹ اور با دام کا کا روبا ر کر نے والے لو گوں کو ہر سال ما لی خسارہ جا ت سے سابقہ پڑ تا ہے اور اب سینکڑوں لوگوں نے ان میوہ جا ت کا کاروبا ر ہی کر نا چھو ڑ دیا ہے ۔وادی کے مقبول عام میو ہ سیب کی با ت کر یں تو یہاں سب سے زیا دہ اسی میو ہ کی کا شت ہو رہی ہے اور وادی کا کو ئی بھی علا قہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں اس میوہ کی کا شت نہ ہو تی ہو ۔تاہم پچھلی کم و بیش ایک دہا ئی سے سیب کی صنعت بھی رو بہ زوال ہے اور با غ ما لکان سے لے کر اس میو ہ کا کا روبا ر کر نے والے لوگ لگا تار ما لی خسارے کا شکا ر ہو جا تے ہیں ۔ غیر معیاری کھادوں اور زرعی ادویات کے چھڑ کا ئو کے نتیجہ میں بھی یہاں کی موی ہ صنعت کو کمر تو ڑ نقصانات جھیلنا پڑ رہے ہیں ۔اس حوالے سے اگر چہ محکمہ ٔ زراعت کی انفورسمنٹ ونگ رواں بر س متحرک دکھا ئی دے رہی ہے اور کئی مقامات پر غیر معیاری کھا دوں اور ادویات کی دکا نوں کو سیل بھی کر دیا گیا ہے تاہم ابھی بھی اس حوالے سے بہت کچھ کر نے کی ضرورت ہے۔کئی کئی با ر با غات میں چھڑکا ئو کر نے کے با وجود بھی اس سال مئی کے مہینے میں سکیب کی ایک لہر وادی کے اطراف و اکنا ف میں چلی اور اس لہر نے سیب کی فصل کو تبا ہ و بر با ر کر کے رکھ دیا اور یوں کا شتکا روں کو مجموعی طور کروڑوں روپے کا نقصان اٹھا نا پڑا ۔حکو مت اگر چہ یہاں کے با غبا نی کے شعبے میں جدت اور جدیدیت لا نے کے بلند با نگ دعوے کرتی ہے تاہم زمینی صورتحال بتا رہی ہے کہ یہ صنعت روبہ زوال ہے اور اگر اس صنعت کے احیا ئے نو کے لئے فو ری طور ایک مو ثر پالیسی اختیا ر نہ کی گئی تو وہ دن دور نہیں جب یہ میو ہ وادی سے نا پید ہو جا ئے گا اور لوگ روزی روٹی سے محروم ہو جا ئیں گے ۔