قیصر محمود عراقی
کسی بھی قوم کی ترقی کا دارو مدار اس میں وقت کے ساتھ ساتھ ہو نے والی مثبت تبدیلوں پر ہو تا ہے اور اگر یہی تغیرات منفی ہوں تو قوموں کے زوال کی سب سے بڑی وجہہ بنتے ہیں ۔ تاہم مثبت ہو ں یا منفی قوموں کو اپنی بقا کے لئے وقت کے تقاضوں کے مطابق تغیرات سے گزرنا پڑتا ہے ۔ آج سے ۱۴ سو سال پہلے آنے والا اسلامی انقلاب ہو یا دو سو سال پہلے آنے والا انقلا ب فرانس ہو ، دو بڑی عالمی جنگیں ہو ں یا 1857ء کی جنگ آزادی ، ہر قوم کو اپنی بقا کی جنگ میں تغیرات سے گزرنا پڑ ا اور یہ تبدیلیاں ہی اقوام کے عروج اور زوال کا باعث بنیں ۔ ہمارا ملک آزادہو نے کے کچھ سال بعد ہی سازشوں کا شکار ہو نے لگا۔ اقتدار کی جنگ ، سازشوں اور مفاد پرستی نے ہمارے ملک میں ایسے ڈیرے ڈالے کہ آج ملک بکھرتا ہوا نظر آرہا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں قدم قدم پر بد دیانتی اور بد عنوانی ہر خاص و عام میں سر ایت کر چکی ہے اور اس کا سد باب نا گزیر ہو چکا ہے ۔ ہندوستان کو اس وقت تبدیلی کی اشد ضرورت ہے اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ ایک مشکل کام نظر آتا ہے ، مشکل اس لئے کہ یہاں صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح سمجھا جا تا ہے ، مشکل اس لئے کہ یہاں بے گناہوں کا قتل عام سی بات ہے ، مشکل اس لئے کہ ہمیں اسکولوں اور کالجوں میں غلط تاریخ پڑھائی گئی ہے ، مشکل اس لئے کہ دوسروں پر الزام تراشی کر نا عام سی بات ہے ، مشکل اس لئے کہ یہاں گوڈسے کوہیرومانا جا تا ہے جبکہ مہاتما گاندھی کو کوئی پوچھتا تک نہیں ، مشکل اس لئے کہ معاشرے کا بڑا حصہ غیر تعلیم یافتہ ہے ، مشکل اس لئے کہ ملک چند سالوں سے آمریت کا شکار ہے ، مشکل اس لئے کہ یہاں آزادی ِاظہار تو ہے مگر اظہار کے بعد آزادی نہیں ، مشکل اس لئے کہ آبادی بڑھنا اور سہولیت کا فقدان ایک بڑا مسئلہ ہے اور مشکل اس لئے کہ بد عنوانی اور بد دیانتی ہمارے معاشرے کے ہر خاص و عام میں پائی جا تی ہے ۔ تبدیلی در حقیقت سوچ کے بدلنے کا نام ہے اور سوچ کو بدلنے کے لئے انفرادی طور پر کوشش کر نی چاہئے کیونکہ افراد ہی سے مل کر اقوام بنتی ہیں ۔ معاشرے میں تبدیلی لا نے کے لئے خود کو بدلنا بہت ضروری ہے ، سارا الزام لیڈران پر ڈالنا بھی غلط ہے ، ہماری انفرادی طور پر بھی کچھ ذمہ داریاں بنتی ہیں ، مثبت تبدیلیوں کے لئے افراد کا مثبت کر دار بہت ضروری ہے ۔ سب سے پہلے ہمیں تعلیم پر توجہ دینا ہو گی، ہماری شرع خواندگی بہت کم ہے، اس کو بڑھا نے کے لئے بجٹ میں ایک بڑی رقم رکھی جا ئے کیونکہ ایک تعلیم یافتہ شخص ہی صحیح اور غلط کے درمیان فیصلہ کر سکتا ہے ، اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو امن ، رواداری اور محبت کا درس دیں اور معاشرے کی درست تعمیر میں عملی کر دار ادا کر یں ، جس سے توانائی کے مسائل پر قابو پایا جا سکے ۔ بد قسمتی سے ہمارا ملک ایک بڑے عرصے تک آمریت کا شکار رہا اور آج بھی ہے ۔ کیونکہ ہمارے سیاسی لیڈران آزادی سے لے کر اب تک شاید اپنے ذاتی مفادات اور پارٹی وفاداری سے اٹھ کر دیکھا ہی نہیں ۔ ہمیشہ مسلمانوں کے قومی مفادات پر سمجھوتا کر تے رہے اور الیکشن کے مواقع پر مختلف اسکیموں اور منصوبوں کے سراب انھیں دکھا تے رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آ ج مسلمان کسمپرسی ، زبوں حالی ، تنزلی اور انحطاط کا شکار ہے ، عزت و سر بلندی ، ترقی ، علم و تحقیق ، طاقت و قوت کی ہر فہرست میں وہ آخری پا ئیدان پر ہے اور علمی تنزلی ، بد عنوانی ، آپسی تفرقہ بازی ، اخلاقی گراوٹ اور سیاسی و عسکری کمزوری کی فہر ست میں و ہ سر فہرست ہے ۔ آج ملک میں ہمارا کوئی سیاسی وزن نہیں ہے ، بے پیندے کے لوٹے کی طرح ہم الگ الگ سیاسی پارٹیوں کی سمت لڑھکتے رہتے ہیں ، ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہو نے کے باوجود ہم سیاسی اعتبار سے ملک کے کمزور ترین طبقات سے بھی کمزور ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے کسی بھی مطالبے ، میمورنڈم ، مذمتی بیان اور مظاہروں کو در خور اعتنا نہیں سمجھا جا تا بلکہ نیوز چینل ان کا سرسری ذکر کرنا بھی گوارا نہیں کر تے ۔ آزادی کے بعد اتنے مایوس کن حالات شاید پہلے کبھی نہ رہے ہوں جتنے آج ہیں ۔ علمی و تعلیمی لحاظ سے دیکھیں تو اس میں بھی ہم سب سے پیچھے ہیں ، اگر اپنی قوم کا تعلیمی گراف دیکھنا ہے تو حکومتی اعداد و شمار دیکھ لیں ، یہ آپ کو نہ بھاتا ہو تو اپنے محلوں اور ہستیوں کے مسلم نوجوانوں کا سروے کر لیں ، اس پہلو سے کہ ان میں سے کتنے سو رمائوں نے ایس ایس سی پاس کیا ہے ، یا اس پہلو سے کہ ان کی دلچسپیاں کہا ہیں اور ان کے شب و روز کہاں گذرتے ہیں اور اس پہلو سے بھی کہ بیڑی ، جو تے ، زری کے کارخانوں میں کس قوم کے بالغ و نا بالغ جوان و نوجوان اپنی عمر عزیز ضائع کر رہے ہیں ۔یہ تو حالات کا رونا تھا جو رویا جا رہا ہے اور رویا جا تا رہے گا ۔ لہذا حالات کچھ بھی ہو ں ، امید کا دامن ہاتھوں سے چھوٹنا نہیں چاہئے ، اس کے لئے گذارش و التماس ہے آج کے اہل قلم و شہسواران منبر و محراب کی ذمہ داروں سے کہ قوم میں مایوسی پیدانہ کریں بلکہ اسے مایوس اور نا امیدی کے دلدل سے نکالیں اور حوصلہ دیں ۔ تبدیلی مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں ۔ بس ضرورت صرف انفرادی و اجتماعی طور پر مثبت اقدامات اٹھا نے کی ہے ، اپنی ذات سے شروع کریں ۔ اگر اپنی ذات کو ٹھیک کر لیا تو سمجھ لیں کہ ملک کو بدلنے کا آدھاکام ہو گیا ۔ لیکن ہماری بد قسمتی یہ رہی کہ آزادی کے بعد سے ہمارا جو بھی سر براہ آباوہ ہمارے اوپر حکمرانی کر نے آیا ، عوام کو تعلیم دینے کے بجائے جہالت کے اندھیروں میں دھکیلتا چلا گیا اور ساتھ ہی عوام کو ہجوم بنا گیا ۔ قومی خزانہ لوٹا جا رہا ہے لیکن ہم کچھ نہیں کر پا رہے ہیں کیونکہ ہمیں حکومت وقت سے کس طرح لڑنا چاہئے اس کا کوئی علم نہیں ہے ۔ آج عوام تعلیم یافتہ ہو تی تو ہجوم کی شکل میں نہ ہو تے ، نہ دھر نے ہو تے ، نہ ہر ہر مودی ہو تا ۔ نہ یوگی نہ تیاگی ہو تے ، نہ شیر آیا شیر آیا کا شور ہو تا اور نہ ہی تبدیلی آنے کی صدائیں بلند ہو تیں ۔ اس لئے اپنے قوم کے نو نہالوں کے اندر تعلیم جگا نا ہو گا کیونکہ تعلیم کے بغیر کوئی بھی قوم ترقی نہیں کر سکتی ۔ مگر افسوس صد افسوس آج کا مسلمان اپنے اس احساس ذمہ داری سے عاری ہو گیا ہے ، جس کی وجہ سے قیادت و سیادت کا مفہوم بالکل الٹ گیا ہے ، اب قوم کا رہبر اس قوم کی خدمت کے لئے نہیں بلکہ اس قوم سے خدمت و صول کر نے کے لئے اپنی عیاری اور مکاری سے کام لیتا ہے ۔ اقتدار کی ہو س اتنی بڑھ گئی ہے کہ ذہن میں سوال آتا ہے کہ اقتدار بھی کیا چیز ہے کہ جس کے لئے لوگ اپنے ضمیر کے خزانے لٹا دیتے ہیں ، بہر حال آخر میں ایک بوڑھے آدمی کی کہانی سنا کر اپنی بات کو ختم کر رہا ہو ں کہ : و ہ بوڑھا آدمی کہتا تھا کہ ’’جب میں چھوٹا تھا تو میں دنیا کو بدلنا چاہتا تھا مگر مجھے دنیا کو بدلنا بہت مشکل لگا تو میں نے اپنی قوم کو بدلنے کا سوچا ، لیکن جب یہ پتہ چلا کہ میں قوم بھی نہیں بدل سکتا تو میں نے اپنے شہر پر توجہ مرکوز کی ، وہ بھی نہ ہو سکا تو سوچا اپنے خاندان کو ہی تبدیل کر دوں اور اب بوڑھا ہو نے کی وجہ سے صرف خود کو ہی تبدیل کر سکتا تھا ، پر اچانک مجھے پتہ چلا کہ اگر میں نے بہت عرصہ پہلے خود کو بدلا ہو تا تو میں اپنے خاندان کو بدل سکتا تھا اور میرے خاندان شہر بدلنے میں اہم کر دار ادا کر سکتا تھا جس سے پوری قوم بدل سکتی تھی اور پھر میں دنیا کو بدل سکتا تھا‘‘۔ تو خدارا اپنے وطن کی خاطر اپنی اصلاح کریں ، اپنا محاسبہ کریں ، خود کو ٹھیک ثابت کریں یہی تبدیلی کی جانب ہمارا اور آپ کا پہلا قدم ہو گا ۔