ابونصر فاروق
اس وقت پوری دنیا کے مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت مال جمع کرنے کی فکر میں لگی ہوئی ہے۔تعلیم کا مقصد یہ طے کر لیا گیا ہے کہ نوکری کے ذریعہ خوب مال کمایا جائے۔ملک سے باہر جانے کا عمل بھی اسی جنون کا حصہ ہے۔زیادہ سے زیادہ مال کمانے کا ایک مقصد یہ ہے کہ خوب عیش و عشرت کی زندگی گزاری جائے۔یہ رجحان اسلام میں گناہ کبیرہ ہے۔اسلام دنیا کے نہیں آخرت کے عیش کی دعوت دیتا ہے اور دنیا وی عیش و عشرت سے روکتا ہے۔دوسرا مقصد یہ ہے کہ دنیا کا مستقبل محفوظ ہو جائے۔مال ہو گا تو دنیا کی ہر مشکل آسان ہو جائے گی۔یہ تصور بھی گناہ کبیرہ ہے۔اللہ پر ایمان کی جگہ مال پرایمان رکھنا اور اُس کو خدا بنا لینا کفر ہے۔تیسری خرابی یہ پیدا ہو تی ہے کہ مال جمع کرنے کا جنون انسان کو بخیل، خود غرض،بے حس،حلال حرام سے غافل بنا دیتا ہے۔ان برائیوں میں مبتلا رہنے والا جنت کا حقدار بن ہی نہیں سکتا ہے۔چوتھی برائی یہ پیدا ہوتی ہے کہ مال کمانے والا نہ تو زکوٰۃ ایمانداری سے ادا کرتا ہے اور نہ ہی اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔قرآن کے مطابق ایسا انسان نیک بن ہی نہیں سکتا ہے۔خلاصہ یہ کہ مال کمانے کا جنون کسی بھی فرد کو مسلم اورمومن بننے ہی نہیں دے گا۔ایسے فرد کی نماز اور حج سب کچھ صرف دنیا دری کے لئے ہوں گے آخرت کے لئے نہیں۔ان باتوں کو قرآن کی درج ذیل آیات کی روشنی میں سمجھئے۔
(۱) جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا ہے، اُنہیں اللہ کے مقابلے میں نہ اُن کا مال کچھ کام دے گا ،نہ اولاد،وہ دوزخ کا ایندھن بن کر رہیں گے ۔ (البقرہ:۱۰)
اس آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ جو لوگ مسلمان ہونے کے باوجود مال کمانے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا کر کافر و منکر جیسی زندگی گزار رہے ہیں،اللہ جب اُن کی نافرمانی پر اُن کو عذاب میں مبتلا کرے گا تو نہ اُن کا مال اُن کے کام آئے گا نہ اُن کی اولاد اُن کی کوئی مدد کر سکے گی۔قرآن کی اس ہدایت کی نافرمانی اور ان دیکھی اہل ایمان نہیں کافر جیسی زندگی گزارنے والا مسلمان ہی کرسکتا ہے۔
اے نبی دنیا کے ملکوں میںخدا کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے۔یہ محض چند روزہ زندگی کا تھوڑا سا لطف ہے، پھر یہ سب جہنم میں جائیں گے جو بد ترین جائے قرار ہے۔ (البقرہ:۱۹۷/۱۹۸)
عر ب کے سردار لوگ نبیﷺ پر الزام لگا تے تھے کہ اگر آپ اللہ کے چہیتے ہوتے تو ہم لوگوں کی طرح مالدار اور شان و شوکت والی زندگی نہیں گزارتے۔یعنی اُن کے نزدیک اللہ کی خوشنودی کا معیارشاندار دنیاداری والی زندگی تھی۔اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو نصیحت کر رہا ہے کہ یہ جو بڑے بننے کے غرور میں پڑے ہوئے ہیں، ان سے آپ دھوکہ نہ کھائیے۔ان کو جو کچھ ملنا تھا دنیا میں مل گیا ۔ بس مختصر زندگی میں ہی یہ مزے کر لیں۔اس کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہ جہنم میں جلتے رہیں گے۔
جو شخص ظلم و زیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا(یعنی باطل طریقے سے ایک دوسرے کا مال کھائے گا)اُس کو ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے، اور یہ اللہ کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔(النساء:۳۰)
مال دار بننے کے لئے حلال اور حرام سے بے پروا ہو کر حرام مال کمانا فرض بن جاتا ہے۔دوسروں کا حق لوٹنے اور ہڑپ کرلینے کے بعد آدمی مالدار بنتا ہے جو ایک ظلم ہے۔ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ جہنم میں جھونک دے گا۔
چھوڑو اُن لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اورتماشا بنا رکھا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔ہاں مگر یہ قرآن سنا کرنصیحت اور تنبیہ کرتے رہو کہ کہیں کوئی شخص اپنے کئے کرتوتوں کے وبال میں گرفتار نہ ہو جائے۔اور گرفتار بھی اس حال میں ہو کہ اللہ سے بچانے والا کوئی حامی و مددگار اور کوئی سفارشی اُس کے لئے نہ ہو ، اور اگر وہ ہر ممکن چیز فدیہ میں دے کر چھوٹنا چاہے تو وہ بھی اس سے قبول نہ کی جائے،کیونکہ ایسے لوگ تو خود اپنی کمائی کے نتیجے میں پکڑے جائیں گے، اُن کو تو اپنے انکار حق کے معاوضے میں کھولتا ہوا پانی پینے کو اوردرد ناک عذاب بھگتنے کو ملے گا(الانعام:۷۰)
حکم دیا جارہا ہے کہ ایسے بدنصیب لوگ جنہوں نے دین کو کھیل اور تماشہ بنا رکھا ہے ان کی زیادہ فکر مت کیجئے، ہاں قرآن کی ہدایات سنا کر ان کونصیحت کرتے رہئے۔ شاید کہ یہ سدھر جائیں اور اپنی بد اعمالی کا شکار نہ بنیں۔زندگی میں اور مرنے کے بعدان کی گرفتاری ایسی ہوگی کوئی ان کی مدد کرنے والا اور ان کو بچانے والا نہیں ہوگا۔ان کی سزا اللہ کا عذاب نہیں ان کی اپنی کرتوتوں کا نتیجہ ہوگا
جن لوگوں نے اپنے ر ب کی دعوت قبول کر لی، اُن کے لئے بھلائی ہے اور جنہوں نے اسے قبول نہ کیاوہ اگر زمین کی ساری دولت کے بھی مالک ہوں اور اتنی ہی اور فراہم کر لیں تو و ہ خد اکی پکڑ سے بچنے کے لئے اس سب کو فدیے میںدے ڈالنے کے لئے تیار ہوجائیںگے۔یہ وہ لوگ ہیں جن سے بری طرح حساب لیا جائے گا،اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ بہت ہی بر ا ٹھکانہ۔(الرعد:۱۸)
یہاں جس دولت اور دنیا داری کے لئے اسلام کو ٹھکرا رہے ہیںان کے پاس جتنی بھی دولت ہو اتنی یہ اور بھی جمع کر لیں اور قیامت کے دن عذاب سے بچنے کے لئے فدیے میں دینا چاہیںگے ،تو وہ قبول نہ ہوگا اوراُن کو بھیانک انجام کا سامنا کرنا ہوگا۔
تم نے دیکھا اُن لوگوں کوجنہوں نے اللہ کی نعمت پائی اور اُسے کفران نعمت سے بدل دیا اور (اپنے ساتھ) اپنی قوم کو بھی ہلاکت کے گھر میںجھونک دیا(۲۸)یعنی جہنم جس میں وہ جھلسے جائیں گے اور وہ بدترین جائے قرارہے (۲۹)اور اللہ کے کچھ ہمسر تجویز کرلئے تاکہ وہ اُنہیںاللہ کے راستے سے بھٹکا دیں۔ان سے کہہ وداچھا مزے کرلو آخرکار تمہیں پلٹ کر جانا دوزخ ہی میں ہے۔(ابراہیم:۳۰)
اس آیت میں مسلمانوں کے مذہبی سرداروں کی بات کی جارہی ہے کہ اللہ نے اُن کو مسلمان ہونے کی نعمت سے نوازا لیکن اُنہوں نے بھی کافروں جیسی زندگی اپنا لی اور اپنے ساتھ اپنے پیچھے چلنے والوں کو بھی جہنم میں جھونکنے کا سامان کر دیا۔کہا جارہا ہے کہ جس دنیا کی لالچ میں تم نے شیطان کو اپنا استاد بنا لیا ہے اُس دنیا میں چند دن مزے کر لو پھرتم کو پتا چلے گا کہ تم کیا کر کے آئے ہو۔
اور اے مجرمو! آج تم چھٹ کر الگ ہو جاؤ۔(۵۹) آدم کے بچو،کیا میں نے تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ تم شیطان کی بندگی نہ کرو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔(۶۰) اور میری ہی بندگی کرو ،یہی سیدھا راستہ ہے۔(۶۱)مگر اس کے باوجود اُس نے تم میں سے ایک گروہ کثیر کو گمراہ کردیا، کیا تم عقل نہیں رکھتے تھے؟(۶۲)یہ وہی جہنم ہے جس سے تم کو ڈرایاجاتا تھا۔(۶۳)جو کفر تم دنیا میں کرتے رہے ہو اُس کی پاداش میں اب اس کا ایندھن بنو(۶۴)آج ہم اُن کا منہ بندکئے دیتے ہیں، اُن کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور اُن کے پاؤں گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کیا کمائی کرتے رہے ہیں(یٰسین:۶۵)
مجرم جب وہاں اپنے گناہوںکو قبول کرنے سے انکار کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے اُن کے منہ بند کر دے گا اور اُن کے ہاتھ پاؤں اآن کے خلاف گواہی دیں گے۔جوبد نصیب سرمایہ دار اپنے جسم کے عیش و آرام کے لئے اللہ کی نافرمانی کرتا رہا اُس دن خود اُس کا اپنا جسم دشمن بن کر اُس کے خلاف گواہی دے گا۔
ہماری آیات میں سے کوئی بات جب اُس کے علم میں آتی ہے تووہ اُن کا مذاق بنا لیتا ہے۔ایسے لوگوں کے لئے ذلت کا عذاب ہے(۹)اُن کے آگے جہنم ہے۔ جو کچھ بھی اُنہوں نے اس دنیا میں کمایا ہے اس میں سے کوئی چیز اُن کے کسی کام نہ آئے گی، نہ اُن کے وہ سرپرست ہی اُن کے لئے کچھ کر سکیں گے جنہیں اللہ کو چھوڑ کر اُنہوں نے اپنا ولی بنا رکھا ہے۔اُن کے لئے دوہرا عذاب ہے۔(الجاثیہ:۱۰)
دنیا کے پرستار اور دولت کے پجاری قرآن سے غافل ہو کر اللہ سے بغاوت کرتے رہے۔قیامت کے دن اُن کا مال اُن کے کچھ کام نہیں آئے گا۔تب اندازہ ہوگا کہ خود کو دنیا میں خو ش نصیب سمجھنے والے کیسے بد نصیب اور کتنے جاہل تھے۔
یہ توہوگا آخرت میں ان سرمایہ داروں کا بھیانک انجام، جس کی ان لوگوں کو ابھی کوئی پروا نہیں ہے۔ لیکن دنیا میں جو دولت اور جائیداد یہ لوگ جمع کرتے ہیں او رچھوڑکر چلے جاتے ہیں اُس کی ان کو کیا سزا ملتی ہے اس کا اندازہ اس وقت کسی کو نہیں ہے۔اس طرف کسی کا دھیان ہی نہیں ہے۔
جتنے سرمایہ دار خاندان ہوتے ہیں،اُن کے لڑکے لڑکیاں عیش و آرام کی زندگی گزارنے کی وجہ سے عیش پسند اور آرام طلب بن جاتے ہیں۔محنت مشقت کا کوئی کام کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہوتی ہے۔اس طرح یہ دنیا کے کاموں کے لئے نالائق اور بیکار بن جاتے ہیں۔دنیا میں جھنڈاگاڑنے کے لئے جان جوکھم میں ڈالنی ہوتی ہے۔خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے تب جا کے یہ دنیا ہاتھ آتی ہے۔اور نالائق اور نکمی اولاد محنت و مشقت کا حوصلہ ہی نہیں رکھتی۔
عیش و آرا م کے لئے دولت کی ضرورت ہوتی ہے۔دولت محنت سے کمائی جاتی ہے۔اس لئے باپ دادا کی جائیداد پر عیش کرنے والے جب مفلس اور نادار بن جاتے ہیں تو اپنے حصے کے بعد دوسرے کے حصوں پر ان کی نظر جاتی ہے اور بے ایمانی سے اُس کو ہڑپ کرنا ان کا مقصد حیات بن جاتا ہے۔گویا چوری، بے ایمانی اور شیطانی چال چلنے والے سماج کے انتہائی گھٹیا لوگ یہ بن جاتے ہیں۔ان کی کہانی سن کر ہر معقول آدمی ان سے نفرت کرتا ہے اور ان کا دوست بننا نہیں چاہتا ہے۔اس طرح یہ سماجی سہارے سے محروم ہو جاتے ہیں۔
بے ایمانی اور شیطانی کی شروعات سب سے پہلے خوداپنے بھائی بھائی اور بھائی بہنوں کے درمیان ہوتی ہے چنانچہ یہ خود غرض لوگ دنیا میں کسی کے دوست اور ساتھی کیا بنیں گے خود اپنے سگے بھائی بہنوں کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ان کا بس ایک ہی نعرہ ہوتا ہے……جپنا پرایا مال اپنا۔
یہ لوگ جب اپنے قریب ترین خونی رشتہ داروں کے اپنے نہیں بن سکتے تو دوسروں کے کیا اپنے بنیں گے ؟ آپسی رنجش، نفرت اور عداوت کی ایک نئی داستان یہ لو گ رقم کرتے ہیں اور اپنی حرکتوں سے ثابت کرتے ہیں کہ مفت میں حاصل کی جانے والی دولت کی ہوس اور لالچ انسان کو کیسا بھیانک حیوان بنادیتی ہے۔ظلم، زیادتی، خو دغرضی، بدخواہی،کینہ پروری،فائدے کی جگہ نقصان پہنچانے کا جنون کیا کیا رنگ دکھاتا ہے، لفظوں میں اس کی تصویر دکھانا مشکل ہے۔
آخر کار نوبت مقدمہ بازی کی آتی ہے۔یا تو طاقت ور فریق قانون کا سہارا لے کر ناجائز ہڑپ کئے ہوئے مال اور جائیداد کو اپنا ثابت کرتا ہے۔ یا کمزور فریق اپنی چھینی ہوئی دولت او ر جائیداد کو حاصل کرنے کے لئے عدالت کا سہار ا لیتا ہے۔ہر دو صورت میں اچھی خاصی رقم مقدمہ بازی کی نظر ہو جاتی ہے۔جائیداد کا بٹورا نہیں ہونے کی وجہ سے جائیداد بے مرمت رہتی ہے اور اُس کے اندر رہنے والوں کی جان جانے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔
جن لوگوں سے خاندانی دشمنی ہوتی ہے وہ موقع غنیمت دیکھ کر کسی ایک فریق کے دوست بن جاتے ہیں اور آپسی رنجش اورعداوت کی چنگاریوں کو شعلہ بنانے لگتے ہیں۔ضرورت دینے پر قرض دے کر دستاویز لکھوا لیتے ہیں اور پھر تین تیرا نو اٹھارا کر کے جائیداد ہتھیا لیتے ہیں۔جائیداد کے اصل وارث کے ہاتھ پچھتاوے، مایوسی، بد دلی،رنج و غم اورآنسو بہانے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔رسول اللہ ﷺکے اس فرمان کو پڑھئے اورسچائی کو جانئے۔
حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہﷺنے فرمایا:میں اپنی امت کے بارے میں دو چیزوں کا بہت زیادہ اندیشہ کرتا ہوں، ایک دنیا اور دنیا کے اسباب کی محبت، دوسرے یہ دنیا سنوانے کے لمبے چوڑے منصوبے بنانے لگے گی ۔تو حب دنیا کے نتیجے میں یہ حق سے دور جا پڑے گی اور دنیا کاسنوارنا اسے آخرت سے غافل کر دے گا۔سنو دنیا تیزی سے جا رہی ہے اور آخرت تیزی سے آ رہی ہے اور دونوں کے ماننے والے اس سے محبت کرتے ہیں، ہو سکے تو تم دنیا کے پرستار نہ بنو، تم اس وقت عمل کی دنیا میں ہو اور حساب کا دن نہیں آیا ہے،کل تم آخرت میں ہوگے جہاں حساب ہوگا اور عمل کا کوئی موقع نہیں ہوگا۔ (مشکوٰۃ)حضرت سہل ؓبن سعد ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا :اگر دنیا کی وقعت اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ اس میں سے کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔(احمد،ترمذی،ابن ماجہ)
بد نصیب سرمایہ دار،دولت کا لالچی، بخیل اور خود غرض بن کر رسوائی کی زندگی بسر کرتا ہے۔مرنے کے بعد جہنم میں پھینکا جاتا ہے۔بے ایمانی سے کمائی جائیداد بال بچوں اور خاندان کی بربادی کے لئے چھوڑ جاتا ہے۔کیا ایسے لوگ عقلمند، سمجھ دار ،خوش نصیب اور کامیاب کہے جا سکتے ہیں ؟؟
ۃضظژظضۃ