حافظ تائب ریاض: رٹھسونہ ترال
متعلم جامعہ سراج العلوم ہلو امام صاحب شوپیاں
دنیا بھر میں مارچ کا مہینہ آتے ہی عورتوں کا ہجوم سڑکوں پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ کیونکہ دنیا بھر میں 8 مارچ "خواتین کا عالمی دن "کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کو خواتینوں کا عالمی دن۔ منانے کا آغاز نیویارک شہر سے 1908 میں ہوا ۔جب تقریباً 15000 خواتین نے سڑکوں پر آکر اپنے حقوق کو پانے کے لیے مارچ کیا۔ اس کےبعد ایک کمیونسٹ خاتون ،جس کا نام "کلارازتکن "تھا نے 1910 میں انٹرنیشنل کانفرنس آف ورکنگ ویمن میں یہ خیال پیش کیا ۔جہاں اس کو اس خیال کی بہت تائید ملی ۔اس کے بعد پہلی مرتبہ آسٹریا،ڈنمارک ،جرمنی اور سویٹزرلینڈ میں 1911 میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا ۔یوم خواتین کے دن کا ہر سال ایک تھیم ہوتا ہے جس کا مقصد صرف یہی ہوتا ہے کہ عورتوں کے حقوق کو پامال ہونے سے بچایا جائے ۔اس سال 2023 کے لیے اقوام متحدہ کا تھیم DigitAll: innovation and technology for gender equality رکھا گیا ہے ۔اک تھیم کا مقصد ٹیکنالوجی اور آن لائن تعلیم کے شعبوں میں لڑکیوں اور خواتین کے تعاون کو تسلیم کرنا اور اس کا کا جشن منانا ہے۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو کیا مقام دیا ہے۔گیس عموما عورتوں کو زندگی میں تین اہم مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ۔ایک پیدائش سے شادی تک،دوسرا ازدواجی زندگی،تیسرا شوہر کے بعد کی زندگی۔پہلے مرحلے میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کہ ازدواجی زندگی تک جب ہی پہنچا جاسکتا ہے جب کہ وجود (پیدائش) کو بقا حاصل ہو ۔مگر اسلام سے پہلے انسان کے اندر صفت بہیمیت پوری طرح غالب آ گئی تھی۔انہوں نے عورتوں کا پہلا ہی حق Right to live ختم کیا تھا ۔جھنڈا اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں پہلے اس دور کا رخ کرنا ضروری ہے جس دور میں ہماری غمخوار جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسلم مبعوث ہوئے ۔تاریخ کے اوراق پھیر کر اس دور کے حالات دیکھنے ہے کہ اس دور میں عورتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا تھا۔اور جب ہم اس چیز کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دورِ جاہلیت میں عورت ایک گھٹیا سی چیز تھی اسے بیچا اور خریدا جاتا تھا ۔اور اسے زندہ رہنے کا حق صرف خاوند کے ساتھ ہی تھا اگر خاوند مر جاتا اور اسے آگ میں جلایا جاتا۔ تو عورت بھی اس کے ساتھ ہی زندہ جل مرتی۔اور اگر وہ خاوند کے ساتھ نہ جلتی،تو اسے لعن و طعن کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔اس کے علاوہ تاریخ میں یہ بھی ملتا ہے کہ جب ان کے ہاں بیٹیاں پیدا ہوتی تو وہ ان کو زندہ دفن کرتے۔جیسا کہ سورۃ النحل میں بھی اللہ رب العزت کا ارشاد ہے۔”جب ان میں سے کسی کو بھی بیٹی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی تو اس کے چہرے پر کلونس چھا جاتی ہے۔ اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس بری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے۔سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھبیٹی کو رہے یا مٹی میں دبا دے؟ (النحل)عرب میں لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کا یہ بے رحمانہ طریقہ قدیم زمانے میں مختلف وجوہ سے رائج ہو گیا تھا ۔سید قطب شہید فی ظلال القرآن میں اس حوالے سے رقمطراز ہے۔” عرب جاہلیت میں لڑکیاں انتہائی بے رحمی کے ساتھ زمین میں گاڑی جاتیں۔ وہ زندہ دفن کی جائیں۔ اس کے لیے دور جاہلیت کے لوگ مختلف طریقے اختیار کرتے۔ مثلاً ایک طریقہ یہ تھا کہ کسی کے یہاں لڑکی پیدا ہوتی تو وہ اسے چھ سال تک پلنے دیتا۔ چھ سال کی ہوجاتی تو اس کی ماں سے کہتا، اسے نہلا دو ، خوشبو لگا کر اس کا بناؤ سنگار کرو۔ میں اسے رشتہ داروں میں لے جاؤں گا ۔ اس بہانےوہ اسے جنگل میں لے جاتا جہاں اُس نے لڑکی دفن کرنے کے لیے کنواں کھود رکھا ہوتا۔ وہ لڑکی سے کہتا کنویں میں جھانک، معصوم بچی بھی کنویں میں جھانکتی اور بے رحم باب دفعتہ اسے کنویں میں دھکیل دیتا اور اس پر مٹی ڈال کر کنواں پاٹ دیتا ۔ ( فی ظلال القرآن) لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کی ثبوت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک سے بھی ملتا ہے کہ آپ کی خدمت میں ایک شخص نے اپنے عہد جاہلیت کا یہ واقعہ بیان کیا کہ میری
ایک بیٹی تھی جو مجھ سے بہت مانوس تھی۔ جب میں اس کو پکارتا تو دوڑی دوڑی میرے پاس آتی تھی۔ ایک روز میں نے اس کو بلایا اور اپنے ساتھ لے کر چل پڑا ۔ راستہ میں ایک کنواں آیا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کنویں میں دھکادے دیا۔ آخری آواز جو اس کی میرے کانوں میں آئی وہ تھی ہائے ابّا ہائے ابّا۔ یہ
سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم رو دیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو بہنے لگے ۔ حاضرین میں سے ایک نے کہا اے شخص تونے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غمگین کر دیا۔ حضور نے فرمایا اسے مت روکو، جس چیز کا اسے سخت احساس ہے اُس کے بارےمیں اسے سوال کرنے دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اپنا قصہ پھر بیان کر۔ اس نے دوبارہ اسے بیان کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سن کر اس قدر روئے کہ آپ کی داڑھی آنسووں سے تر ہوگئی ۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا۔ کہ جاہلیت میں جو کچھ ہو گیا اللہ نے اسے معاف کر دیا ۔ اب نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کر۔ غرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے سے پہلے عرب میں عورتوں کے ساتھ بہت ظلم کیا جاتا تھا۔ عورتوں کے ساتھ غلاموں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مبعوث ہونے کے بعد اس بے حیائی اور اس ظلم پر روک لگی ۔ عورتوں کا جو سب سے پہلا اور ضروری حق یعنی جینے کا حق ( Right to live) دنیا نے چھین لیا تھا۔ اسلام نے اس حق کو برقرار رکھا اور ڈوبتی انسانیت کو حیات اور حوا کی بیٹی کو جینے کا حق دیا ۔ ارشاد ربانی ہے” اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کسی قصور میں ماری گئی” ؟(سورۃ التکویر ) صاحب تفہیم القرآن اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ان آیات کے اندا زِ بیان میں ایسی شدید غضب ناکی پائی جاتی ہے ۔ جس سے زیادہسخت غضب ناکی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔بیٹی کو زندہ گاڈنے والے ماں باپ اللہ کی نگاہ میں ایسے قابل نفرت ہوں گے کہ ان کو مخاطب کرکے یہ نہ پوچھا جائیگا کہ تم نے اس معصوم کو کیوں قتل کیا، بلکہ ان سے نگاہ پھیر کر معصوم بچی سے پوچھا جائے گا کہ بے چاری آخر کس قصور میں ماری گئی، اور وہ اپنی داستان سنائے گی کہ ظالم ماں باپ نے اس کے ساتھ کیا ظلم کیا اور کس طرح اسے زندہ دفن کر دیا۔در حقیقت یہ اسلام کی برکتوں میں سے ایک بڑی برکت ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ عرب سے اس انتہائی سنگ دلانہ رسم کا خاتمہ کیا ، بلکہ اس تخیل کو مٹایا کہ بیٹی کی پیدائش کوئی حادثہ اور مصیبت ہے جسے بادل ناخواستہ بر داشت کیا جائے ۔ اس کے برعکس اسلام نے یہ تعلیم دی کہ بیٹیوں کی پرورش کرنا، انہیں عمدہ تعلیم و تربیت دینا اور انہیں اس قابل بنانا کہ وہ ایک اچھی گھر والی بن سکیں، بہت بڑا نیکی کا کام ہے۔ چناچہ عورت کی جان کا تحفظ کرنے کے بعد اسلام نے اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اس کے ولی کو مقرد کی ۔حضور کاارشاد ہےجو شخص لڑکیوں کی پرورش کرے اور ان سے نیک سلوک کرے تو یہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں گی ۔(بخاری 5995)
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے ہاں لڑکی ہو اور وہ بھی اسے زندہ دفن نہ کرے ، نہ ذلیل کرکے رکھے ۔نہ بیٹے کو اس پر ترجیح دے اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔(ابو داؤد)
مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے دو لڑ کیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں تو قیامت کے روز میرے ساتھ وہ اس طرح آئے گا، یہ فرما کر حضور نے اپنی انگلیوں کو ملا کر بتایا۔(مسلم 6698)
دوسرا مرحلہ ازدواجی زندگی کا آتا ہے ۔ اسلام نے شوہر کو ہدایت دی کہ وہ اپنی بیوی سے محبت و شفقت سے پیش آئے ۔ ان کی تمام تر ضروریات کو پورا کرئے ۔ اللہ عزوجل اپنے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ” پر نازل کردہ کتاب میں عورتوں کے تعلق سےفرماتا ہے کہ( عاشروھن بالمعروف ) ان عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گزران کیا کرو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔ سب سے کامل ایمان اس شخص کا ہے ، جس کے اخلاق عمدہ ہوں اور تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی بیوی کے حق میں میں بہتر ثابت ہوں ( ترمذی ) ۔ابوحازم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے جب ( اپنی بیوی میں ) کوئی ( پسند نہ آنے والا ) معاملہ دیکھے تو اچھی طرح سے بات کہے یا خاموش رہے ۔ اور عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک کی نصیحت قبول کرو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے ۔ اور پسلیوں میں سب سے زیادہ ٹیڑھ اس کے اوپر والے حصے میں ہے ۔ اگر تم اسے سیدھا کرنے لگ جاؤ گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی ، عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک کی نصیحت قبول کرو۔ (مسلم3644)
بیویوں کے بارے میں آنحضور ﷺ کی ایک اور ہدایت یہ ہے کہ ان کی غذا اور لباس کا بھی خاص طور سے خیال رکھا جائے چنانچہ حضرت حکیم بن معاویہ قشیری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم میں سے کسی کی بیوی کا اس پر کیا حق ہے؟ فرمایا کہ جب تم کھاؤ تو اسے کھلاؤ اور جب تم پہنو تو اسے پہناؤ اور اس کے منہ پر نہ مارو اور اس کو بدزیب نہ بناؤ اور اس کو الگ نہ چھوڑو مگر گھر ہی میں (یعنی کسی بات پر سبق سکھانے کے لئے) گھر میں ہی الگ کرو گھر سے باہر نہ نکالو۔(ابو داؤد۔ مشکوٰۃ)بیویوں کے مابین عدل کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیان عدل نہ کرے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں اٹھے گا کہ اس کے جسم کا ایک دھڑ الگ ہو گیا ہوگا۔‘‘(مشکوٰۃ بروایت حضرت ابو ہریرہ ؓ)
اس بارے میں آنحضور ﷺ کا نمونہ نہایت اعلیٰ درجہ کا تھا۔ آپ روزانہ ’’بعد عصر ہر ایک بیوی کے پاس اس کے مکان پر تشریف لے جاتے اور ان کی ضروریات معلوم کرتے پھر بعد نماز مغرب سب سے ایک مختصر ملاقات فرماتے اور شب کو مساویانہ طور پر باری بار ی ہر ایک گھر میں استراحت فرمایا کرتے تھے۔ ہر بیوی کا مکان الگ تھا اور سب مکان باہم پیوست تھے۔ فتح خیبر کے بعد حضورؐ نے ہر ایک بیوی کے لئے اسّی وسق کھجور اور بیس وسق جو سالانہ مقرر کر دئیے تھے۔ دودھ کے لئے ہر بیوی کو ایک ایک دودھ دینے والی اونٹنی ملا کرتی تھی۔‘‘
تیسرا مرحلہ آتا ہے شوہر کے بعد کی زندگی کا، اسلام سے پہلے ہوتا تھا کہ جب عورت غیر شادی شدہ ہوتی تو اس کی کفالت باپ کے ذمہ ہوتی تھی اور شادی کے بعد شوہر کے زیر دست رہتی باپ سے اسے کوئی حصہ نہیں ملتا تھا مگر اسلام نے آتے ہی اس رسم کا خاتمہ کر دیا اور قرآن پاک نے آیت میراث کے ذریعہ اس کا حصہ بیان کر کے اس فتنہ کا بھی سدباب کر دیا۔ ارشاد ربانی ہے۔تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ : مرد کا حصّہ دو عورتوں کے برابر ہے ، اگر ﴿میّت کی وارث﴾ دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے۔ اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے ۔
اگر میّت صاحب اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصّہ مِلنا چاہیے ۔ اور اگر وہ صاحب اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصّہ دیا جائے ۔ اور اگر میّت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصّہ کی حق دار ہوگی۔ ﴿یہ سب حصّے اس وقت نکالے جائیں گے﴾ جبکہ وصیّت جو میّت نے کی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جو اس پر ہو ادا کر دیا جائے ۔ تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے ۔ یہ حصّے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں ، اور اللہ یقیناً سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے (النساء 11)
اس کے علاوہ اب عورت بچوں کے سپردبھی ہوتی ہے اب اس کی کفالت کی ذمہ داری ، اس کے حقوق کو پورا کرنے کی ذمہ داری بچوں پر آتی ہے تو یہ واضح ہے کہ اسلام اس بارے میں کیا ہدایات دیتا ہے۔اللہ رب العزت کا ارشاد ہے "تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہےکہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو گے ، مگر صرف اس کی .والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو ۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اف تک نہ کہو ، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو ، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو ،اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو ، اور دعا کیا کرو کہ پروردگار ، ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا(بنی اسرائیل 23-24)چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کے متعلق ارشاد فرمایا کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے (الحدیث)۔ یہ کچھ بنیادی اور موٹے موٹے حقوق میں نے آپ کے سامنے رکھے۔مگر اسلام نے کسی بھی جگہ عورت کو نظر انداز نہیں کیا ۔بلکہ ہر جگہ عورتوں کے حقوق قایم رکھنے کی ہدایت دی ہے ۔مندرجہ بالا سطور سے آپ کو اندازہ آیا ہوگا کہ جس اسلام نے عورت کی اتنی عزت اور لاج رکھی وہ عورت پر ظلم کرنے یا عورت کے حقوق پامال کرنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے ۔ اب اسلام نے عورت کے لیے کچھ حدود قائم کی ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ، چونکہ عورت گھر کی زینت ہے اس لئے اس زینت کو نظر بد سے محفوظ رکھنے کے لئے اسلام نے کچھ حدود قائم کئے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان پابندیوں سے عورت کو کوئی نقصان پہنچا ہو، اسے کسی دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ بلکہ یہ تو عین حیا اور غیرت ووقار کا تقاضہ ہے۔